• news
  • image

یوسف رضا گیلانی کیوں نہیں جیتیں گے؟؟؟

یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کا الیکشن سینیٹ کا بڑا مقابلہ ہے۔ یہاں دونوں کے الیکشن پر بہت بات چیت ہو رہی ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو بہت امید ہے کہ یوسف رضا گیلانی جیت جائیں گے لیکن یہ ان کی خواہش ہے، خواب ہے لازم نہیں کہ ہر خواب کو تعبیر ملے اور ہر خواہش پوری بھی ہو۔ جیت حفیظ شیخ کی ہو گی اور یاد رکھیں یہ قریبی یا سخت مقابلہ بھی نہیں ہو گا ممکن ہے یکطرفہ مقابلہ ہو گا، ووٹوں کا واضح فرق ہو گا اور یوسف رضا گیلانی ناکام ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی ناکام کیوں ہوں گے جبکہ ساری اپوزیشن مل کر انکی کامیابی کے لیے زور لگا رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سب کو اپنے اپنے سیاسی مستقبل کی فکر ہے۔ سب اپنا اپنا سیاسی مستقبل بچا رہے ہیں اور مستقبل کی سیٹیں سیدھی کر رہے ہیں۔ جن لوگوں پر پی ڈی ایم کو بھروسہ ہے وہی دھوکہ دیں گے کچھ بعید نہیں کہ ان کے اپنے لوگ ہی ووٹ نہ دیں۔ سمجھنے والوں کے لیے اشارے کافی ہوتے ہیں۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ والوں کا بدلتا ہوا انداز بیان بلاوجہ نہیں ہے۔ انہیں بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ ہر وقت کی بیان بازی سے سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ 
ویسے بھی جو تماشا سینیٹ الیکشن کے نام پر لگا ہے اس نے ہمارے انتخابی نظام کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ صرف سینیٹ کی کہانی نہیں ہے ہمارا سارا انتخابی نظام ہی لین دین کی بنیاد پر قائم ہے۔ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں کیا کوئی جواب دے سکتا ہے کہ الیکشن پر کروڑوں خر چ کرنے والے آخر کس امید پر بھاری رقم خرچ کر رہے ہیں، انتخابات پر رقم خرچ کرنے والے یہ پیسے کہاں سے پورے کریں گے، وہ اپنا پیسہ پورا کرنے کے لیے کیا راستہ اختیار کریں گے۔ 
اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی بے پناہ پیسہ خرچ کرتے ہیں، دفتر کھلتے ہیں، پیسہ خرچ ہوتا ہے، ووٹرز قائدین سے دفتروں کے پیسے لیتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ جو پیسہ وہ امیدوار سے وصول کر رہے ہیں اس کی واپسی بھی عوام سے ہی کی جائے گی لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخر اس انتخابی نظام سے ملک و قوم کو کیا حاصل ہوا ہے۔ سینیٹ انتخابات کو ہی دیکھ لیں کتنے تنازعات سامنے آئے ہیں۔ گذشتہ روز ہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی ویڈیو منظرعام پر آئی ہے۔ویڈیو میں علی حیدر گیلانی ایک رکن کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں۔ اب اس ویڈیو کا وقت دیکھ لیں الیکشن کا وقت دیکھ لیں جس امیدوار کے لیے یہ مہم جاری ہے اس کا مرتبہ دیکھ لیں اس کے بعد بھی اگر کسی کے ذہن میں کوئی شک و شبہ ہے کہ حکمران طبقہ کس حد تک حصولِ اقتدار کے لیے آئین، قوانین اور اخلاقیات کو تباہ کرتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اس ویڈیو کو لے کر الیکشن کمشن پہنچ گئی ہے لیکن الیکشن کمشن کیا کیا کرے کچھ ذمہ داری اْمیدواروں کی بھی ہوتی ہے۔ کیا سیاست دان خود نہیں جانتے کہ وہ حکمران ہیں انہیں اپنے اعمال، فیصلوں اور کارکردگی سے مثال قائم کرنی چاہیے جب وہ خود ہی غیر اخلاقی انداز میں منتخب ہوں گے، آئین و قانون پر سمجھوتہ کریں گے تو پھر وہ عوام کے لیے کیسے بہتر کام کر سکتے ہیں یا کیسے ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لیے کام کریں گے جب یہ خود آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر اقتدار میں آئیں گے تو آئین و قانون کا مذاق ہی بنے گا۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتار کر ان کا سیاسی کیرئیر داؤ پر لگایا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے وہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے اور جنوب کارڈ کھیلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ بھی خیال ہے کہ جہانگیر ترین کی موجودگی میں یوسف رضا گیلانی کو سپورٹ مل جائے گی کیونکہ دونوں کے اچھے تعلقات ہیں اور پی پی پی میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ وہ تمام آزاد اراکین جن کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انہیں جہانگیر ترین پاکستان تحریکِ انصاف میں لے کر آئے تھے وہ سب یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیں گے۔ یہ ایک سوچ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار صرف کسی ایک شخصیت کے زیر اثر نہیں ہوتے نہ ہی وہ کسی ایک شخصیت کی وجہ سے کسی جماعت کا حصہ بنتے ہیں سب کو اپنا اپنا سیاسی مستقبل عزیز ہوتا ہے اور آنے والے اسی مستقبل کو دیکھ کر جیتنے والی جماعت کا حصہ بنتے ہیں۔ یوں پاکستان پیپلز پارٹی نے جمع تفریق میں غلطی کی ہے اور سینیٹ انتخابات کے نتائج ثابت کریں گے کہ ان سے کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے۔ 
 سابق وزیراعظم کے بیٹے کا ویڈیو سکینڈل بھی سامنے آیا ہے اس حوالے سے علی حیدر گیلانی کہتے ہیں کہ ہم نے ساری زندگی ضمیر کا ووٹ مانگا ہے ،ہم نے کبھی ووٹوں کی خرید و فروخت میں حصہ نہیں ڈالا،تمام ممبران اسمبلی سے ووٹ مانگنا ہمارا حق ہے۔ اب اس کا فیصلہ تو پاکستان کے عوام نے کرنا ہے کہ ضمیر کیا ہے۔ کیا ووٹوں کو ضائع کرنا بھی ضمیر کا حصہ ہے۔ یہ کیسا ضمیر ہے۔ علی حیدر گیلانی کہتے ہیں کہ ہم سے تحریک انصاف کے کچھ ارکان اسمبلی نے رابطہ کیا تھا وہ حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ گیلانی صاحب اپنے ووٹوں کی خیر کریں۔ حفیظ شیخ کو تو ووٹ پڑ ہی جائیں گے۔ اپنے ووٹوں کی فکر کریں۔دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ عوامی جذبات پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ہیں لیکن یہ اتنی تھکی ہوئی اپوزیشن ہے کہ ان عوامی جذبات کو بھی حکومت کے خلاف بہتر انداز میں استعمال نہیں کر سکی۔ اپوزیشن جماعتوں کے الگ الگ بیانیے اور سوچ کی وجہ سے سینیٹ انتخابات میں ناکامی سے بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ سب کے اپنے اپنے اہداف ہیں۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ والے ایسے ہی چلتے رہیں گے میاں نواز شریف نے بھی مقابلے کے بجائے بلامقابلہ کو ترجیح دی ہے۔ سینیٹ انتخابات کا نتیجہ کچھ  بھی ہو پی ڈی ایم جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر چلتی رہے گی چونکہ انہوں نے آئندہ عام انتخابات تو اکٹھے لڑنا نہیں ہے یہ سب صرف اور صرف نیب سے بچنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے اس لیے سینیٹ میں کامیابی یا ناکامی سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ کس سیاسی جماعت کا کیا مستقبل ہے اس کے لیے اکتوبر یا نومبر تک حالات کسی حد تک واضح ہو جائیں گے۔ عام انتخابات مقررہ وقت پر 2023 میں ہی ہوں گے اور ان انتخابات میں ایک نئی سیاسی قوت ضرور سامنے آئے گی اور یہ سیاسی قوت بھی اسی انداز میں متحرک ہو گی جیسے دو ہزار سولہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف متحرک ہوئی تھی۔ سو جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تحمل مزاجی سے کام لینے اور سیاسی ماحول کو پڑھنے والے سیاستدان ہی بہتر فیصلوں سے اپنا مستقبل بہتر بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ آئندہ عام انتخابات میں ایک نئی سیاسی جماعت ضرور سامنے آئے گی۔ اس لیے بہت سے لوگوں کو امید رکھنی چاہیے کہ انہیں ایک مرتبہ پھر ملک و قوم کی خدمت کا موقع ملے گا۔ ملک کے سیاسی حالات میں ہلچل پیدا ہوتی ہے تو اس کے لیے ستمبر سے نومبر کے دوران تبدیلی متوقع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دوران کہاں کہاں کیا تبدیلی آتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن