پنجاب میں تبد یلی پرو یزالہی کے بغیر ناممکن شہباز حمزہ کے متحرک ہونے سے لیگی سیا ست بد ل سکتی ہے
لاہور (تجزیہ، محمد اکرم چودھری) پنجاب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی چودھری پرویز الٰہی کی مرضی یا تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اپوزیشن کو جتنا ریلیف ملنا تھا مل چکا، مزید سہولت، ڈھیل یا نرمی مشکل ہے۔ نیب کا نسبتاً نرم رویہ حالات بدلنے کا پتہ دیتا ہے۔ حکومت مدت پوری کرے گی۔ پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اس حوالے سے جو مرضی کہتی رہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ "ان ہائوس" تبدیلی کے لیے چودھری پرویز الٰہی کا تعاون اور ان کا قائل ہونا لازمی ہے۔ سینٹ میں کامیابی، یوسف رضا گیلانی کی جیت، حمزہ شہباز کا دوبارہ سیاست میں متحرک نظر آنا اور میاں شہباز شریف کی عملی سیاست میں واپسی سے زیادہ سہولت حزب اختلاف کو نہیں مل سکتی۔ اپوزیشن کے لیے نیب کا نسبتاً نرم رویہ بھی مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی خبر دے رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ عمران خان، وزرائے اعلیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی کب تک سیٹ پر رہیں گے اس کا فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی۔ یہ بلاول بھٹو زرداری کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن انہیں یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے جمہوری حکومتوں کا مدت پوری کرنا نہایت اہم ہے اور اسی سوچ کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی مدت پوری کرے گی۔ وزرائے اعلٰی اور سپیکر کا فیصلہ تو نئے انتخابات نے ہی کرنا ہے اور عام انتخابات 2023ء میں ہوں گے۔ اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں گی یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ مسلم لیگ نون پنجاب اسمبلی میں تبدیلی کی خواہش مند ہے۔ اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی انہیں آگے لگا رہی ہے یا سہارا دے رہی ہے۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں مل کر بھی پنجاب میں تبدیلی نہیں لا سکتیں۔ پنجاب اسمبلی میں تبدیلی سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے فیصلے سے مشروط ہے۔ پرویز الہٰی کا جھکاؤ جدھر ہو گا اقتدار ان کے ساتھ چلے گا۔ اس وقت پرویز الٰہی کی مرضی کے بغیر پنجاب اسمبلی میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اپوزیشن کو جتنی ڈھیل ملنا تھی مل چکی ہے۔ نیب کی اچانک نرمی بلا وجہ نہیں ہے، نیب کی سختی کم ہو رہی ہے، حتیٰ کہ کرپشن کیسز میں بھی آنے والے دنوں میں اپوزیشن کو مزید ڈھیل مل سکتی ہے۔ نیب کیسز ہی حزب اختلاف کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں اور یہ مسئلہ حل ہونے کے بعد یا ڈھیل ملنے کے بعد انہیں مستقبل کا سیاسی منظر نامہ بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ نرمی بلاوجہ یا یکطرفہ نہیں ہے۔ اس نرمی کے جواب میں اپوزیشن جانتی ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے اور اپوزیشن وہی کرے گی جو جمہوریت کے مفاد میں ہو گا۔ حمزہ شہباز شریف سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ عین ممکن ہے آنے والے دنوں میں میاں شہباز شریف بھی دوبارہ سیاسی میدان میں داؤ پیچ لگاتے نظر آئیں۔ میاں شہباز شریف کی عملی سیاست میں واپسی بھی سمجھنے والوں کے لئے کافی ہے۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے متحرک ہونے سے نون لیگ کا انداز سیاست بھی بدل سکتا ہے۔ میاں شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کے قائل ہیں اور حمزہ شہباز بھی اپنے والد کے طرز سیاست کو آگے لے کر چلتے ہیں۔ حمزہ شہباز کی عملی سیاست میں واپسی سے پنجاب میں نون لیگ کے سائیڈ لائن اراکین قومی و صوبائی اسمبلی دوبارہ فعال کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔