کیا یہ صدارتی نظام کیلئے رچایا گیا ڈراماتھا؟
پاکستان کی سیاست یک رنگی نہیں ہمہ رنگی ہے اور اسرارورموز کے دبیز پردوں میں بھی لپٹی ہوئی ہے۔ سامنے کچھ ہو رہا ہوتا ہے پس منظر میں کچھ اور چل رہا ہوتا ہے۔ پس پردہ چلنے والی کہانیاں کبھی ہوش گم کر دیتی ہیں۔ اندر کیا ہو رہا ہوتا ہے باہرکیا بتایا جاتا ہے۔ اس میں کبھی تو زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کبھی حریفوں کے مابین طے ہونیوالے معاملات مدتوں بعد سامنے آتے ہیں اور کبھی خفیہ ہی رہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔ 2018ء میں عمران خان کو 176جبکہ اب انہیں 178ووٹ ملے۔ فیصل واوڈا قومی اسمبلی میں سینیٹ کا ووٹ کاسٹ کرکے مستعفی ہو گئے تھے۔ سپیکر کا ووٹ بھی عمران خان کو ہی پڑنا تھا یوں آج حکومت اور اس کے اتحادیوں کی طاقت 180ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کل تک کی ساری ایکسرسائز ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہوئی تو کئی لوگ اس پر شاید متفق نہ ہوں مگر شواہد کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگوں کو غلط فہمی یا خوش گمانی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کی مدد سے دستبردار ہو گئی یہ تو خام خیالی ہے۔ حکومت اور مقتدر حلقے ایک پیچ پر تھے اور ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بیانیہ کو ذرا ذہن میں لائیں فوج کے خلاف الزام، دشنام اور بہتان لگائے گئے۔ جس کی قطعی طور پر پذیرائی نہ ہوئی۔ نواز لیگ کے اس عمل بلکہ احمقانہ بیانیے نے حکومت اور فوج کو مزید قریب کر دیا۔ اب ذرا پیپلزپارٹی کے بیانیے کی بات کریں تو وہ حکومت کے سخت خلاف جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہے۔ جب نواز لیگ اسٹیبلشمنٹ کے حق میں بات کرکے نواز شریف کو جیل سے ہسپتال اور ہسپتال سے لندن لے گئی تھی وہاں جا کر میاں صاحب نے اشتہاری ہونے سے بچائو کیلئے پھر انہی پر زور دیا تو دال نہ گلنے پر انہی پر ہاتھ ڈال دیا جنہوں نے سیاست میں میاں صاحب کو داخل کرکے انکے اتالیق کے فرائض ادا کیے تھے۔ اب ذرا سینیٹ کے قومی اسمبلی میں ہونیوالے الیکشن کی بات کریں تو وہاں سے پی پی پی کے امیدوار کو 164ووٹ ملے۔ تحریک انصاف کی خاتون امیدوار کو 174ووٹ ملے۔ جہاں سے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے ایک ایک سیٹ جیت لی جبکہ تحریک انصاف کی خاتون امیدوار کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی امیدوار ہار گئیں۔ عبدالحفیظ شیخ کو یوسف رضا گیلانی نے شکست دی۔ یہ بھی طے شدہ پلاننگ تھی جس کا مقصد وزیراعظم کیلئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا جواز پیدا کرنا تھا۔ جو انہوں نے حاصل کر لیا۔ اس سارے عمل میں مسلم لیگ ن ہاری ہی نہیں چاروں شانے چِت ہوئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حکومت اور پیپلزپارٹی ایک پیچ پر تھے اور ہیں۔ ہاتھ اگر ہوا ہے تو مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوا ہے ۔ قارئین! محترم مریم نوازشریف چاہے جتنی بڑی سیاسی بساط پر اکیلے کھیلنے کا دعوی کرے مگر یہ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف کے بغیر وہ اپنے اردگرد کے ساتھیوں پر آنکھیں بند کرکے اعتبار نہیں کر سکتیں۔کیا یہ بھی کھیل کا حصہ نہیں تھا کہ عین سینیٹ کے الیکشن سے صرف تین دن پہلے حمزہ شہباز کی ضمانت پر رہائی اور میاں شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے اجلاس اور یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے کیلئے پروڈکشن آرڈر پر رہا کیا گیا ۔
اگر پی ڈی ایم کی با ت کی جائے تو وہ یوسف رضا گیلانی کی جیت پر جس طرح ہوا میں اڑ رہی تھی وہ وزیراعظم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کے حصول کے موقع پر منتشر نظر آئی۔ جن کے ساتھ ہاتھ ہوا تھا پارلیمنٹ کے باہر وہی پہنچے اور دھینگا مشتی کا حصہ بن گئے۔ ایک پارٹی کے لیڈروں کا دوسری پارٹی کے کارکنوں کاکبھی بھی آمنا سامنا نہیں ہوا مگر یہ تماشا بھی ڈی چوک میں لگا اور دنیا نے دیکھا۔ جہاں صرف ن لیگ کے لیڈر آئے۔ پی پی ایک پیج پر ہونے کا حق ادا کرتی رہی۔ اس سارے منظرنامے کا مقصد ملک میں صدارتی نظام کیلئے راہ ہموار کرنا ہے جو بہت حد تک ہو گئی ہے۔سینیٹ میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت ہے قوی امکان ہے کہ وہاں پی ٹی آئی اپنا چیئرمین منتخب کرا لے گی اگر نہ بھی کرا سکی تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ پیپلزپارٹی کا چیئرمین بالفرض آ جاتا ہے تو وہ بھی صدارتی نظام کیلئے اپنا کردار ادا کرتا نظر آئے گا۔ اس سارے منظرنامے میں مسلم لیگ ن راندۂ درگاہ نظر آتی ہے ۔
قارئین! چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے فوراً بعد پاکستان کی سیاست میں چنداہم کام سٹپ بائی سٹپ انجام پائیں گے ۔چیئرمین سینیٹ کا انتخاب پی ٹی آئی جیت جائے گی۔پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے اگلا بجٹ آسانی سے منظور کروانے میں کامیاب ہو جائیگی۔اس سال اکتوبر تک ملک میں صدارتی نظام کیلئے مطلوبہ ترامیم منظور کروا لی جائیں گی۔جس سے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے مشترکہ مفادات کو تقویت ملے گی۔