عورت، عورت، عورت!!!
اگر مرد کو اندازہ ہو جائے کہ عورت کتنی طاقتور ہو تی ہے تو کوئی مرد بھول کر بھی عورت کے حقوق سلب نہ کرے۔ عورت بظاہر مردسے جسمانی طور پر کمزور ہے مگر اعصابی لحاظ سے مرد سے زیادہ مضبوط ہے۔ آپ ساری دنیا میں دیکھ لیں کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صرف پاکستان میںنہیں بلکہ ساری دنیا میں عورتیں 52فیصد ہیں۔ عورت گھر کے کام کاج کے علاوہ جہاں بچوں کی پرورش کرنے کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ وہاں مردوں کے ساتھ کھیتوں ، فیکٹریوں، دفتروں، عدالتوں، تھانوں، جیلوں، سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں بھی کام کرتی ہیں۔ یہ ساری دنیا عورت کے وجود سے معطر ہے۔ اگر دنیا سے عورت کو نکال دیا جائے تو دنیا ایک زنگ آلودہ پُرزہ بن جائے۔ کائنات کا تمام حسن، دلفریبی، کشش اوررنگینی عورت کے دم سے ہے۔ عورت نے دنیا کو دلٓاویزی اور رعنائی دی ہے۔ خیر و شر بھی عورت کے دم سے ہے او ر گناہ ثواب، جنت جہنم بھی عو رت کی وجہ سے ہے۔ عورت میں نور بھی ہے اور شر بھی۔ عورت کی وجہ سے دنیا میں معنویت ہے اور عورت سے ہی تمام رشتوں کی ڈور بندھی ہو تی ہے۔ عورت ذہانت کا استعارہ ہے۔ ہمارے ہاں بے شمار عورتوں کو محض اس لئے سامنے نہیں آنے دیا جاتا کہ کمتر ذہنیت کا مرد عورت کے حُسن سے تو گھائل ہو نا جانتا ہے مگر اپنی نام نہاد انانیت کی وجہ سے اُسکی ذہانت کو دباتا ہے۔ اُسکی ذہانت اور فراست کو دبانے کیلئے منفی ہتھکنڈے استعمال کر تا ہے تاکہ اُسکی نام نہاد مردانگی کو ٹھیس نہ پہنچے حالانکہ عقلمند مرد اپنی عورت کی ذہانت، فراست، قابلیت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر دنیا بھر میں عورت کی ذہانت اور لیاقت کو دبایا جاتا ہے بالخصوص پاکستان میں ذہین خواتین کے لئیے اُن کی ذہانت ایک مصیبت بلکہ عذاب بن جاتی ہے۔ منفی عدم مساوات میں پاکستان کا 153ممالک میں 151واں نمبر ہے۔ انسانی حقوق کے معاہدوں میں ’’سیڈا‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو نے کے باوجود عملدرآمد بمشکل فیصد ہے۔ عورت کو 21 ویں صدی میں رہنے کے باوجود مواقع میسر نہیں ۔ اگر دنیا کی صرف 100خواتین کو مردوں جتنے حقوق اور آسانیاں میسر ہوں تو دنیا کی سو عورتیں اِس خطہء ارض کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیں۔بندرا نائیکے، مارگریٹ تھیچر، میری رابنسن، گولڈامئیر، گروہارلم برنتھ لان، خالدہ ضیائ، حسینہ واجد، اندرا گاندھی، کم کیمبل، ایڈتھ کریسن، میگاوتی سو ئیکارنو، تانسو سلر، بے نظیر بھٹو، گلوریامیک پیگل آرویو، ماریہ مو سکوسو، کوری اکینو، ازبیلا پیرون۔۔۔یہ وہ لیڈر خواتین ہیں جنہوں نے مردوں کی اجارہ داری پر ضرب لگائی اور تمامتر مشکلات کے حکمرانی کی ۔ اسی طرح اگر اماں حوا سے سلسلہ شروع کریں تو ایسی ایسی مشہور زمانہ خواتین گزری ہیں کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ملکہ خیزراں، قلوپطرہ، یشودھرا، رانی مایا، مارتھا واشگنٹن، ملکہ نورجہاں، ملکہ وکٹوریہ، رضیہ سلطانہ، چاند بی بی ، ماریا ما نٹسیوری، جون آف آرک، فلورنس نائٹ انگیل، جنکو ٹیسا ئی، لیڈی جین گرے نامور خواتین تھیں۔ دنیا بھر میں حکمران خواتین سے بھی زیادہ شہرت رکھنے والی خواتین کا تعلق ادب سے ہے جن میں ارسلا بو م وہ ادیبہ ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ لکھا۔ ورجینیا ولف، ہیلن کیلر، سلطان جہاں بیگم، پرل بک، قرا ۃالعین حیدر، عصمت چغتائی، جمیلہ ہا شمی، امتا پریتم غرضیکہ سینکڑوں نام ہیں۔ ان خواتین نے عو رتوں کی سوچ بدلی اور شعور دیا۔ ادیب خواتین نے سماج میں رویئے بدلے اور دنیا میں رومانوی فضا کو پروان چڑھایا۔ جنگ و جدل کی بجائے امن، محبت، رواداری پیدا کی۔ عورت کا کردار لا متناہی ہے مگر عورت کا دوسرا رخ کافی بھیانک اور خوفناک بھی ہے مثلاََ عورت ہی عو رت کی بدترین دشمن ہے۔ عورت نے اپنی ہی عورت کو دوزخ میں دکھیلا ہے۔ عورت میں جو چند منفی جذبے ہیں۔ اُن میں حسد، رقابت، برتری، جلن اور انتقام یہ پانچوں منفی رویے عورت کا امیج تباہ کر رہے ہیں اور پو ری سوسائٹی اسکی لپیٹ میں ہے۔ عورت میں یہ پانچوں زہر قاتل جذبے اور رویے اُسکے اندر چھپے ہو ئے احساس کمتری کی علامت ہیں۔جب وہ اپنے مدمقابل دوسری عورت کی عزت ،شہرت، ناموری اور مقبولیت دیکھتی ہے تو اُسکے اندر پے پناہ حسد پیدا ہو جاتا ہے۔ حاسد عورت جلن اور رقابت میں اُسکی ساکھ کو خراب کرتی ہے۔ کردار کشی کرتی ہے۔ آج عورت تعلیم یافتہ ہے۔ اُسکے پاس وسائل ہیں، علم کے ذرائع ہیں اور پو ری دنیا ایک ٹچ پر ہے مگر آج کی عورت نے دل میں لالچ حسد رقابت کو پال رکھا ہے۔ وہ محنت نہیں کرتی۔ بچوں کی تربیت نہیں کرتی۔ ہڈحرام اتنی ہو چکی ہے کہ کھانے تک باہر سے منگواتی ہے۔ اپنے مرد میں تحریک کی بجائے تحریص پیدا کر تی ہے۔ رشتوں میں دراڑیں ڈالتی ہے۔ یہ جو روزانہ اتنے اغوائ، زیادتی، قتل، ڈاکے چوری کرپشن کے واقعات ہو تے ہیں۔ اُن میں عورت کا ہی کردار ہے۔ اگر وہ اپنے شوہر، بیٹوں، بھائیوں، باپ کو برائی سے رُوکے تو کو ئی مرد ایسا گھنائونا کام نہ کرے۔ عورت کو اللہ نے جو بے پناہ صلاحیتیں دی ہیں۔ اگر وہ اُن سے کام لے تو وہ معاشرے کے اچھی اکائی بن سکتی ہے۔ اس لیے آج عورت کو سوچنا چاہیے کہ آج کی عورت کو خطرہ کسی مرد سے نہیں، خود اپنی صنف کی عورت سے ہے۔