• news
  • image

سبق آموز

قارئین! میری کوشش ہوتی ہے کہ زندگی کی حقیقی سبق آموز باتیں آپکے علم میں لائوں۔ میں ایک قومی بینک کی شاہراہ قائداعظم پر واقع ایک بڑی برانچ کا منیجر تھا۔  ہمارے دفتر سے کچھ فاصلے پر ایک سرکاری دفتر تھا جن کے پاس بہت پیسے تھے۔ میں اس سرکاری دفتر کے چیف صاحب کی خدمت میں حاظر ہونا شروع ہو گیا۔ جہاں مال پانی کھلے عام چلتا تھا۔ مجھے اپنے کاروباری لالچ میں گھنٹہ گھنٹہ بھر اُن صاحب کی فضولیات سننی اور سہنی پڑتیں۔ اُس وقت تک پاکستان میں اچھی قسم کی ٹائلیں اور سینٹری کا سامان وغیرہ بننا شروع نہیں ہوا تھا۔ وہ صاحب ببانگِ دہل کہا کرتے تھے کہ میں نے کوٹھی کا سارا سامان باہر سے منگوایا ہے۔ دونوں بیٹوں کو باہرپڑھا رہا ہوں۔ تاشقند میں اپنی پوسٹنگ کاٹنے کے بعد جب میں واپس آیا تو مجھے بھولے بسرے لوگ یاد آنے لگے۔ اُن لوگوں میں سے یہ صاحب بھی تھے۔ بڑی خواہش ہوئی اُن سے ملنے کی۔ ڈھونڈتا اور پوچھتا ہوا لاہور کی ایک ماڈرن آبادی میں اُنکے گھر تک پہنچ گیا۔گیراج میں ایک چارپائی پر ایک بوڑھا شخص میلے سے کپڑوں میں بدحالی کی تصویر بنے بیٹھا تھا۔مجھے بڑا دھچکا لگا۔ میں نے اُن کی آن بان، شان، مرتبہ اور دبدبہ دیکھا تھا۔ میں نے ہمت کرکے اُن سے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا تو انہوں نے دونوں بیٹوں کو مغلظات سناتے ہوئے کہا کہ دونوں کو باہر سے پڑھایا۔ یہ دونوں اچھی نوکریوں پر ہیں۔ لیکن مجھے گھر کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں اپنے پوتے پوتیوں کو چومنا تو دور کی بات اُنہیں چھو بھی نہیں سکتا__ ! مجھے رزقِ حلال اور حرام کا فرق نمایاں طور پر نظر آیا۔ لاہور کی ایک بستی میں ایک مسجد زیر تعمیر تھی۔ ایک دن ایک نیا نمازی آیا اور پوچھنے لگا۔ بھئی کیا وجہ ہے اس مسجد کی تعمیر مکمل کیوں نہیں کرتے۔ ا س پر انتظامیہ کے لوگوں نے بتایا کہ ابھی 6لاکھ کا کام ہے۔ اُن صاحب نے خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ کام شروع کرو، کل پیسے آجائینگے۔ دوسرے دن وہ صاحب آئے۔ ذرا غصے میں پوچھا کہ کام کیوں نہیں شروع کروایا۔ انتظامیہ کے ایک دو بندوں کو ایک طرف لے گئے۔ 6 لاکھ دیتے ہوئے اُن سے وعدہ لیا کہ آپ میرا نام کسی کو نہیں بتائو گے۔پھر کیا تھا کہ بندے بندے کو خبر ہو گئی۔ پتہ کروایا گیا کہ یہ صاحب نئے نئے کرائے دار آئے ہیں۔ انتہائی سادہ زندگی ہے۔ گھر میں صرف ایک چارپائی، ایک حقہ، کچھ برتن اور ایک خدمتگار ہے۔ آہستہ آہستہ محلے والوں کی محفل وہاں ہونا شروع ہوگئی۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے۔ گائوں میں میرا دل نہیں لگتا۔ چاروں بیٹے آسٹریلیا میں ہیں۔ یہ باتیں سن کر اُن کی شخصیت میں مزید جاذبیت پیدا ہو گئی۔ ایک دن چائے اور حقے کا دور چل رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور حاجی صاحب نے سب کو خاموش ہونے کا کہا کہ بیٹے کا آسٹریلیا سے فون ہے۔ دوسری طرف کیا بات ہو رہی ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ حاجی صاحب نے بلند آواز سے کہا کہ اوئے کیا کہا ہے کہ 20 بندے آسٹریلیا میں کام کرنے کیلئے چاہئیں۔ اوئے کیا کہا کہ پندرہ لاکھ فی بندہ خرچہ آئے گا اور ماہانہ تنخواہ دولاکھ ہوگی۔ حاجی صاحب نے نعرہ لگایا کہ مجھ سے نہیں یہ بکھیڑا ہو سکتا۔ بس یہ بات حاضرین محفل نے نوٹ کرلی۔ رات کے بارہ بجے دروازہ کھٹکا۔ ایک صاحب چپکے سے آئے کہ حاجی صاحب آپ اس کام میں نہیں پڑنا چاہتے۔ لیکن میرا ایک ہی بیٹا ہے اُس کو آسٹریلیا بھجوا دیں اور رقم بھی دے گئے۔ حاجی صاحب نے بظاہر بہت لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے اُس سے ایک وعدہ لیا کہ ا س بات کا ذکر کسی سے نہیں کرینگے۔ یوں ہر روز لوگ رات کے اندھیرے میں آتے۔ رقم دیتے اور کسی کو نہ بتانے کا وعدہ دے جاتے۔ ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ حاجی صاحب کے گیٹ پر تالا لگا ہوا ہے۔ سب گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ حاجی صاحب اس نیک مشن کی تکمیل کرکے کروڑوں روپے لے اُڑے۔ تربیلا ڈیم کے ایک انتہائی نیک اور دیندار چیف ا نجینئر میرے کلائنٹ تھے۔ فنانس کمپنیوں نے تادیبی ایکشن لینے والے اداروں کی ایک آنکھ بند کروا کے عوام کو لوٹا ہے۔ غالباً چیف انجینئر صاحب نے میری برانچ میں 32 لاکھ کا ایک چیک جمع کروایا۔ ساتھ ہی وزیر آباد میں ایک فنانس کمپنی میں اپنا ایک اکائونٹ کھول دیا اور اُن کو میرے بینک کا چیک دے دیا۔ایک دن بڑی بڑی مونچھوں والا ایک نوجوان اُن کی چیک کی رقم لینے آگیا کہ میں فلاں فنانس کمپنی کا جنرل ڈائریکٹر ہوں۔ میں نے اُسے پیسے دینے سے انکار کر دیا۔ دوسرے دن چیف انجینئر صاحب پھنکارتے ہوئے میرے چیمبر میں داخل ہوئے اور مجھے کہا کہ تم نے میرے بندے کو پیسے دینے سے انکار کیا ہے۔ کیا یہ تمہارے باپ کے پیسے ہیں۔ فنانس کمپنی والوں نے مجھے 22 پرسنٹ منافع دینے کا وعدہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ جناب ایک منٹ بیٹھیں ا ور انہیں بتایا کہ جناب ہیروئین کے کاروبار میں بھی اتنی بچت نہیں ہے۔ وہ فنانس کمپنی آپ کو کہاں سے اتنا بڑا منافع دیگی۔ چیف انجینئر صاحب نے کہا کہ میں تمہارے صدر کو تمہاری شکایت کروں گا۔ میں چپ ہو گیا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چوتھے دن فنانس کمپنیاں بیٹھ گئیں۔ میں نے دیکھا کہ چیف انجینئر صاحب مٹھائی کا ڈبہ ہاتھ میں لئے آرہے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی مجھے کہا کہ تم نے مجھے میری متاع سے محروم ہونے سے بچا لیا ہے۔ہمارے ملک میں حرص، طمع اور لالچ لوگوں کو کبھی پیر، سپاہی، ڈبہ پیر، ڈبل شاہ اور فنانس کمپنیوں کے پاس لے جاتا ہے۔ یوں یہ لوگ سنتے کانوں اور کھلی آنکھوں کے ساتھ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن