وزیراعلی ہزاروں ریسٹورینٹس کو بچانے کیلئے اقدامات کریں
لاہور (محمد اکرم چودھری) پنجاب حکومت ہزاروں ریسٹورنٹس کو بچانے کے لیے اقدامات کرے، کرونا کی آڑ میں ریسٹورنٹس کی آؤٹ ڈور سروس بند کرنے سے بیروزگاری میں اضافے کا خدشہ ہے۔ حکومت بیوروکریسی کے جال میں پھنس گئی تو بیروزگاری بڑھنے سے عوامی سطح پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ریسٹورنٹس کی آؤٹ ڈور سروس بند کرنے کا مشورہ دینے والے حکومت کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے کیونکہ جس کرونا وائرس کو بنیاد بنا کر ریسٹورنٹس پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اسی کرونا کے پھیلاؤ کے دنوں میں شادی کی تقریبات میں سینکڑوں افراد کو اکٹھا ہونے اور سٹیج ڈرامہ دیکھنے کے لیے بھی سینکڑوں افرد کو کئی گھنٹوں کے لیے اکٹھا ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ حیران کن ہے کیونکہ ریسٹورنٹس میں عموماً ایک دوسرے کی صحت سے باخبر لوگ ہی محدود وقت کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، وہاں زیادہ تعداد میں لوگ جمع نہیں ہوتے بلکہ گنتی کے افراد موجود ہوتے ہیں۔ ریسٹورنٹس میں حفاظتی تدابیر پر بھی عمل کیا جاتا ہے لیکن ریسٹورنٹس کی آؤٹ ڈور سروس کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس شادیوں اور سٹیج ڈراموں کی اجازت دی گئی ہے جہاں ایک دوسرے کی صحت کی صورتحال سے ناواقف سینکڑوں افراد کئی گھنٹوں کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ حکومت کے اس فیصلے سے فوڈ انڈسٹری سے منسلک ہزاروں افراد میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ریسٹورنٹس پر پابندیاں عائد کرنے سے حکومت مخالف جذبات میں اضافہ ہو گا کیونکہ حکومتی فیصلے سے ہزاروں افراد کا روزگار خطرے میں ہے۔ حکومت کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا چاہتی ہے تو اسے تمام شعبوں کے لیے یکساں پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے۔ اگر شادی ہال اور تھیٹرز کھلے ہیں تو پھر ریسٹورنٹس بند کرنے کی کیا منطق ہے۔ یہ مشورہ دینے والے حکومت کے خیر خواہ نہیں ہیں نہ ہی وہ زمینی حقائق سے واقف ہیں اگر مقصد صرف کرونا کو روکنا ہے تو پھر شادیوں کی تقریبات کو گھروں تک محدود کیوں نہیں کیا جا رہا۔ کیا سینکڑوں افراد کی شادیوں میں شرکت اور سٹیج ڈرامے دیکھنے والے کرونا وائرس سے متاثر نہیں ہو سکتے اس دوہری پالیسی سے ریسٹورنٹس میں کام کرنے والے ہزاروں افراد میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں جب پہلے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں حکومت کو بہتر حکمت عملی اپناتے ہوئے کاروبار کو چلانے کا راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ "بابو" کی تنخواہ تو سرکار کے ذمے ہے وہ کیا جانے کہ عام پاکستانی کن حالات میں زندگی گذار رہا ہے۔