جمہوریت بلدیاتی اداروں سے ہی پھلتی پھولتی ہے سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر ) بلدیاتی انتخابات کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت ملک چلانے کی اہل نہیں ہے یا فیصلے کرنے کی؟۔ تین صوبوں میں حکومت کے باوجود کونسل میں مردم شماری سے متعلق ایک فیصلہ نہیں ہو رہا۔ سپریم کورٹ نے لوکل باڈیز سے متعلق پنجاب حکومت کے آرڈیننس پر برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے پنجاب میں بلدیاتی حکومت کی تحلیل اور بلدیاتی الیکشن کیس چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے قرار دیا کہ چیف جسٹس درخواستوں پر سماعت کیلئے تین رکنی بنچ تشکیل دیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ابھی تک مردم شماری سے متعلق فیصلہ نہیں ہوا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا حکومت ملک چلانے کی اہل نہیں ہے یا فیصلے کرنے کی؟۔ دو ماہ سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیوں نہیں ہوا؟۔ پاکستان چلانے کی بنیاد ہی مردم شماری ہے۔ کیا مردم شماری کے نتائج جاری کرنا حکومت کی ترجیح نہیں؟۔ عدالتی حکم کے باوجود اجلاس ملتوی ہونا آئینی ادارے کی توہین ہے۔ کوئی جنگ تو نہیں ہو رہی تھی جو اجلاس نہیں ہوسکا۔ اب تو ویڈیولنک پر بھی اجلاس ہوسکتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 24 مارچ کو ہوگا ۔حساس معاملہ ہے حکومت اتفاق رائے سے فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا مشترکہ مفادات کونسل کی رپورٹ کو خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟۔ اچھا کام بھی خفیہ ہو تو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ کیا ملک میں اس انداز میں حکومت چلائی جائے گی؟ عوام کو علم ہونا چاہیے کہ صوبے کیا کر رہے ہیں اور وفاق کیا۔ الیکشن کمشن کے مطابق حکومت کی جانب سے نیا بلدیاتی قانون لانے سے پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔ سادہ الفاظ میں پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی۔ پنجاب اسمبلی میں کتنے ارکان ہیں۔ جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اپنایا کہ 374 ارکان پر مشتمل پنجاب اسمبلی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکیا گورنر پنجاب ان 374 ممبران سے زیادہ اہل ہے؟۔ کیا گورنر پنجاب وائسرائے ہیں۔ کیا گورنر پنجاب عوام کے نمائندے ہیں یا صدر مملکت کا انتخاب۔ کیا ہم دوبارہ برطانوی راج میں داخل ہوچکے ہیں۔ ایک بندے کی خواہش پر پوری پنجاب اسمبلی کو بائی پاس کیا گیا۔ گورنر پنجاب پاکستانی ہیں یا باہر سے درآمد کیے گئے ہیں؟۔ کیا گورنر پنجاب دوہری شہریت کے حامل ہیں؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا گورنر پنجاب کو بتائیں کہ وہ کوئی سیاسی بیان نہیں دے سکتے۔ گورنر پنجاب سیاسی سرگرمی بھی نہیں کر سکتے۔ پنجاب حکومت الیکشن کمیشن کے تابع ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس وہی اختیارات ہیں جو سپریم کورٹ کے پاس ہیں۔ عدالت نے بات کرنے کیلئے بار بار ہاتھ کھڑا کرنے پر سیکرٹری بلدیات پنجاب نورالامین مینگل کی سرزنش کردی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا دوبارہ ہاتھ کھڑا کیا تو باہر نکال دوں گا۔ آپ سکول میں نہیں آئے کہ ہاتھ اٹھا رہے ہیں، پنجاب حکومت کیا کر رہی ہے۔ پنجاب حکومت سے اپوزیشن برداشت نہیں ہوتی۔ اب پنجاب حکومت ایسا کرے کہ چار ماہ کے بعد نیا آرڈیننس لے آئے۔ پنجاب حکومت نے دانستہ پنجاب کے 12 کروڑ عوام کو بنیادی مسائل کے حل سے محروم کیا ہے۔ لوگوں کے بنیادی مسائل سڑک اور پانی وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ کیا گورنر پنجاب پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ جو عمل گورنر پنجاب نے کیا وہ وائسرائے بھی نہیں کرتے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا پنجاب حکومت کا بلدیاتی آرڈیننس سپریم کورٹ پر حملہ ہے۔ کیا پنجاب حکومت اقتدار کے نشے میں پنجاب کو ملک سے الگ کرنا چاہتی ہے؟۔ لگتا ہے پنجاب میں مشرقی پاکستان والا سانحہ دہرانے کا منصوبہ ہے۔ لوگوں کو جمہوریت سے متنفر کیا جا رہا ہے؟ کیا جمہوریت سے متنفر کرکے آمریت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟۔ لگتا ہے پنجاب حکومت کو عوام سے شدید نفرت ہے۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا فوج میں آرڈیننس کا مطلب اسلحہ ہوتا ہے، آئین کیساتھ کھیلا جا رہا ہے، سارا ملک برباد کر دیا۔ کیا قانون شکنی پر حکومت کو قائم رہنا چاہیے؟۔ ملک پنجاب حکومت کا نہیں ہمارا ہے۔ جمہوریت بلدیاتی اداروں سے ہی پھلتی پھولتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے الیکشن کمیشن کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ کیا سینٹ چیئرمین کا انتخاب الیکشن کمیشن نے کرایا؟۔ جس پر الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین سینٹ کا انتخاب سینٹ خود کراتی ہے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن چیئرمین سینٹ کا انتخاب نہیں کرائے گا؟ جس پر الیکشن کمیشن کے ڈی جی لا نے کہا آرٹیکل 60 کے تحت سینیٹ کا اختیار ہے کہ چیئرمین منتخب کرے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کیا سینٹ رولز میں لکھا ہے کہ الیکشن کمشن کا تعلق نہیں؟ چلیں اس کو ابھی رہنے دیں۔ چیئرمین سینٹ کا الیکشن کرانے والا بندہ الیکشن کمشن کا نہیں لگ رہا تھا۔