کیا علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا فیصلہ درست تھا؟
علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے سیاست سے کنارہ کشی کے اعلان سے دو سیاسی کزنوں میں اشتراک کو دھچکا پہنچا۔درویش صفت مذہبی مبلغ نے کمال خوبصورتی سے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے سیاست کے ایوانوں میں بھونچال برپا کر دیا۔قارئین سیاسی تجزیہ نگاری ایک مشکل سائنس ہے ڈاکٹر طاہر القادری کو انڈر ایسٹی میٹ کرنا پہلی فاش غلطی تھی دراصل مانگے تانگے کے کھلاڑی جمع ہونا شروع ہوگئے تو ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی چکمہ کھاگئی کہ یہ اکیلا گھوڑا شاید میدان مار لے گا۔ ایوان اقتدار اور سیاسی بھول بھلیوں میں اکیلے پن کو محسوس کرنے کے بعد پی ٹی آئی نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو گھبراہٹ میں یہ بھول گئے کہ اب ان کے ساتھ منہاجین نہیں کھڑے اور یہ بات آج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کا اتحاد برقرار رہتا توآئندہ کم ازکم دس سال تک اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اقتدار کے نشے میں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ پاکستان کی پچھلی بہتر سالہ تاریخ میں جماعت اسلامی کے بعداگر کسی کے پاس اسٹریٹ پاور ہے تو وہ منہاج القران کی تنظیم کے پاس ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامہ طاہرالقادری کا سیاست سے سبکدوشی کا اعلان کس تناظر میں تھا؟ دراصل 2018 کے الیکشن نتائج کے بعد علامہ طاہرالقادری صاحب کے لیے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ناکام آپریشن( دھرنا پلس) میں چکھ چکے تھے اور سمجھتے کہ دو امیدواروں کے درمیان بیچاری دلہن کاحشر کیا ہوگا اور بالاآخر وہی ہوا جو ڈاکٹر طاہرالقادری کی زیرک نظروں نے بھانپ لیا تھا اور منہاج القران کی قوت اور طاقت کو کسی بہتر موقع کے انتظار میں بچا لیا یہی وجہ ہے گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کی مرکزی شوری کا پہلا اجلاس بلایاگیا اور بہت جلد سانحہ ماڈل ٹائون کے کیسز شفاف طریقے سے شروع کرنے کی تحریک ملکی سطح پر شروع کی جائے گی مگر اس بار سیاسی کزنز کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیاجائے گا کیوںکہ سیاست میں دوبارہ غلطی کی گنجائش موجود نہیں۔قارئین جس طرح گذشتہ روز سینیٹ کے انتخابات اختتام پذیر ہوئے ہیں اور جس طرح ان انتخابات کے دوران عوامی نمائندوں نے اپنی تذلیل کا بندوبست خود کیا ہے۔ اور جس طرح ایوان بالا کو ایک بکرامنڈی کی طرح پیش کیا گیا ہے کیا ایسے عوامل کا یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ ترین ایوان میں جو اوپن ہارس ٹریڈنگ ہوئی وہ اس قوم کا مزاج ہے ہمیں دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کے پارلیمنٹرین نظام کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح پاکستان کے ایوان بالا کے ارکان بِکے یا انہیں خریدا گیا اور اس ٹریڈنگ منڈی میں جس طرح سیاستدانوں، بیوروکریسی ،سرمایہ داروں اور اسٹیبلشمنٹ نے بھرپور حصہ لیا اور یہ سب ہمارے سماج کے ماتھے پر ایک کلنک کا ٹیکا ہے ۔ ایک طرف ملک میں کرونا وائرس کے متعلق عوام کا مزاج بالکل مختلف ہے اور حکومتی ایس او پیز کی پرواہ نہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ بائیس کروڑ عوام کو حکومتی وعدوں اور حکومتی اقدامات پر یقین نہیں اور وہ حکومت کی طرف سے بنائے گئے ایس اوپیز کو نہیں مانتے۔یہی وجہ ہے کہ آج سینیٹ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد حکومتی واویلا لوگوں کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا کہ پاکستان سنگین ترین نتائج بھگتنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔اس وقت حالت یہ ہے کہ ہم پچھلے ایک سال سے عوام کو یہ باور کراتے رہے کہ پوری دنیا میں کرونا خطرناک نتائج دے رہا ہے مگر پاکستان کے حالات عمران خان کی گڈ گورنس کے نتیجے میں اچھے ہیںمگر جب امریکہ سمیت پوری دنیا کرونا کی وبا ختم ہونے کی حتمی تاریخیں دے رہی ہے عین اسی وقت حکومت پاکستان بائیس کروڑ عوام کو کرونا کی شدید لہر آنے کی نوید سنا رہی ہے۔ دراصل اس وبا کے دوران پاکستان کی وزارتِ صحت ذہنی اور عملی طور پر تیار نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں کرونا کے چند لاکھ ٹیسٹ ہوئے اور کم ٹیسٹوں کی بنیاد پر یہ اخذ کر لیا گیا کہ پاکستان میں کرونا بھارت اور دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس طرح بلی کو دیکھ کر کبوتر نے آنکھیں بند کرنے کی روش برقرار رکھی۔قارئین پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دوراہے پر کھڑا ہے۔ ملک بھر میں عجیب کشمکش اور سیاسی و سماجی افراتفری کا عالم ہے اور ایسے میں اگر وطن عزیز کو بائیس کروڑ عوام نے سہارا نہ دیا تو ہماری نسلیں خدانخواستہ اس کا عبرت ناک انجام بھگتیں گی۔