• news

عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت مفلوج کرنے کے در پے

لاہور (محمد اکرم چودھری) پاکستان ایک بار پھر تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت کو مفلوج کرنے کے درپے ہیں اور معیشت میں بہتری کیلئے اقدامات پر  ہاتھ باندھے جا رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک ایکٹ میں ترامیم کا مقصد حکومت کو ان تمام اختیارات سے محروم کرنا ہے جس کے نتیجہ میں شرح سود‘ ایکسچینج ریٹ کا تعین‘ حکومتی صوابدید پر نوٹوں کی چھپائی‘ امور مملکت کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ٹریژری بلوں کے ذریعے قرضوں کا حصول اور صنعتی شعبوں کیلئے مراعات کی پالیسی سے ہاتھ اٹھانا پڑیں گے۔ کیونکہ عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ حکومتوں نے مالیاتی اختیارات کا صحیح استعمال نہیں کیا۔ اس لئے ان تمام مالیاتی معاملات میں بہتری لانے کیلئے سخت گیر مالیاتی نظام نافذ کیا جائے تاکہ ملکی معیشت کو متوازن انداز میں چلایا جا سکے۔ اس ضمن میں پاکستان بزنس کونسل جوکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہے نے اس ایکٹ کی مخالفت کی  ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس کی مخالفت کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ایکسپورٹرز اور دیگر تجارتی شعبوں کو ملنے والی ری فنانسنگ سمیت دیگر سہولتوں پر زد آئے گی۔ آئی ایم ایف کے کرتا دھرتا سمجھتے ہیں کہ کرونا کی وباء کے اثرات سے نمٹنے کیلئے وفاقی حکومت نے عارضی اکنامک ری فنانس کے تحت نجی شعبہ کو جو سہولت دی ہے اس کو ختم ہونا چاہیے۔ ایک اندازہ کے مطابق کووڈ کے اثرات سے بچانے کیلئے مختلف سکیموں کے تحت 430 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں اور کم شرح سود کے نتیجہ میں ملک میں پلانٹ اور مشینری بھی خریدی گئی ہے۔ یہ تمام سہولتیں سٹیٹ بنک ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت دی گئی ہیں اور آئی ایم ایف کی خواہش ہے کہ سیکشن-17 کو اس حد تک محدود یا ختم کر دیا جائے کہ صنعتوں کو کوئی چھوٹ نہ مل سکے۔ اس ایکٹ کے تحت حکومتی اختیارات کے خاتمہ سے نجی شعبہ کو 140ارب روپے کی چھوٹ سے محروم ہونا پڑے گا۔ اگر موجودہ حکومت اور ماضی کی حکومتیں مالیاتی ڈسپلن کو پیش نظر رکھتیں تو اس صورتحال کا موجودہ حکومت کو سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ان میں اکثر معاملات اور حقیقتوں سے عوام کو اس وقت آگاہ کیا جاتا جب 6ارب ڈالر کے حصول کیلئے ڈیل ہو رہی تھی۔ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط سے حکومت کو آگاہ کر دیا تھا لیکن اس نے عوام کو آگاہ نہیں کیا۔ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ ریفارمز کو رو بہ عمل نہ لانے سے پاکستان مالیاتی محاذ پر مسلسل ناکامی سے دوچار ہے اور اس نے پورے سسٹم میں بہتری لانے کیلئے اپنے اختیارات کو صحیح طریقہ سے استعمال نہیں کیا۔ اس لئے انہوں نے حکومت کو باور کرانا شروع کردیا ہے کہ سخت مالیاتی ڈسپلن کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ مالیاتی ڈسپلن لانے کا نسخہ جو آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے اس کا ایک مقصد بجلی کے گردشی قرضوں کو بھی قابو میں لانا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مجوزہ ترامیم کے نتیجہ میں پاکستان میں مہنگائی کو اور فروغ ملے گا۔ علاوہ ازیں ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو یہ موقع بھی فراہم ہوگا کہ وہ ان تمام خرابیوں کو موجودہ حکومت کے کھاتہ میں ڈال دیں، لیکن یہ ایک دو دن کا قصہ نہیں بلکہ خرابیوں کا دائرہ گزشتہ کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا اور حکومت نے بظاہر ان شرائط کو قبول کرنے اور اپنی مالیاتی خود مختاری کسی عالمی مالیتی ادارہ اور نمائندہ کے ہاتھوں گروی رکھنے کا اگر فیصلہ کر لیا ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط پر ہتھیار ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کر لی تو ملک میں نہ صرف بے چینی بڑھے گی‘ درآمدات اور برآمدات دونوں اس کی زد میں آئیں گی۔ جن صنعتی شعبوں کی کچھ بحالی کے امکانات پیدا ہوئے ہیں وہ پھر ترقی معکوس کی طرف بڑھ جائیں گی۔ جب قومیں اور ملک اپنے سسٹم کو ٹھیک کرنے کی اور مقابلے کی بجائے ہتھیار ڈالنے کی پالیسی اختیار کر لیں تو پستی میں گرنے کی گہرائی کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا اور بعید نہیں کہ آئی ایم ایف ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل اختیار کر لے۔  ہمارے حصہ میں ایک انگریز کی غلامی کے بعد دوسرے  استعمار کی غلامی کا طوق نہ پڑ جائے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو جائے اور اس ملک میں موجودہ جمہوریت کی جگہ ایسا نظام آ جائے جو ہمیں ترقی و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کر دے تو ممکن ہے اس ملک میں موجود صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر اسے ایک عظیم مملکت بنایا جا سکے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ 2018ء کے بعد آنے والے سال بھی ہمیں کوئی اچھی خبر دینے میں ناکام رہے۔ ان حالات میں انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک تعالٰی ہمارے حکمرانوں اور ان کے سیاسی مخالفوں کو عقل اور سمجھ کی توفیق دے (آمین)کیونکہ 22کروڑ عوام کی زندگی نہ صرف مشکل ہوتی جارہی ہے بلکہ بہتری کے امکانات بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔ غریب غریب سے غریب تراور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ استعماری نظام اپنے پنجے گاڑتے ہوئے ملک کی رہتی سہتی اکانومی کو مکمل تباہ کرنے کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ حکومت کو یہ سوچنا ہو گا کہ یہ 22کروڑ عوام کا ملک ہے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ان کو غلام بنائے اور یہ حکومت تو آئی ہی غلا می سے آزاد کروانے کے نعرے کے ساتھ تھی۔ اب  تو لگتا ہے حکومت عوام کو اس نہج پر لے کر آرہی ہے کہ عوام پر بجلی کا استعمال بھی آہستہ آہستہ بند کر دیا جائے گا کیونکہ حکومت نے  (آئی ایم ایف) کے دباؤ کے باعث نیپرا ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس، بجلی کے بلوں میں 10فیصد سرچاج کے لیے آڑدیننس جاری کر دیا ہے۔ بجلی کے بلوں میں پہلے ہی متعدد ٹیکس شامل ہیں اور اب نیپر ا کو مکمل آزادی کے بعد  لگتا ہے بجلی کا استعمال جو پہلے ہی عام آدمی کے لیے مشکل تھا، اب مزید مشکل ہو جائے گا۔ 

ای پیپر-دی نیشن