کریک ڈائون کے بعد چینی کی بوری ایک روز میں1200روپے مہنگی
لاہور (تجزیہ: محمد اکرم چوہدری) چینی کا بحران ایک دفعہ پھر رمضان سے قبل عوام کے لیے مسائل کی وجہ بن گیا۔ چینی کے بحران کو حل کرنے کے لیے بہتر تو یہ تھا کہ اس بحران کی وجوہات کو تلاش کیا جاتا اور تما م سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے کو حل کیا جاتا۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ چینی کا مسئلہ مل مالکان، مڈل مین ایجنٹس اور چینی کے ہول سیل سپلائرزکے سٹیک ہولڈرز کی غیر موجودگی میں یہ مسئلہ حل ہوسکے۔ حکومت کو چاہیے تھاکہ تینوں سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر رمضان میں چینی کی فراہمی اور قیمت کو بہتر بنانے پر کام کرتی۔ لیکن اس معاملے کو جس طرح ہینڈل کیا گیا اس سے چینی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہیں اور حکومت کا عمل دخل نظر کہیں نہیں آرہا ہے اور آنے والے دنوں میں اگر مزید کریک ڈاؤن ہوئے تو حکومت کے لیے مزید مسائل بڑھیں گے۔ حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور معاملے کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی طرف جانا چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق ایک روز قبل مقامی تھوک مارکیٹ میں 100کلو چینی کی بوری جو 9400میں دستیاب تھی حکومت کے ایکشن کے بعد 1200روپے کے اضافہ کے ساتھ 10600روپے کی ہوگئی۔ جو پرچون سطح پر عام آدمی کو اب 108روپے سے لے کر 110روپے کے لگ بھگ ملے گی۔ تفصیلات کے مطابق قانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے چینی کے تاجروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد گزشتہ روز مقامی تھوک مارکیٹ میں جو چینی کی قیمت بڑھی اس سے یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ حکومت قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور عام آدمی کے مفادات کا تحفظ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ اگر حکومت کے پاس واضح رٹ نہیں تھی تو رمضان سے قبل اس قسم کا ایکشن کیوں لیا گیا؟ کیا حکومتی ادارے جنوری سے پہلے سو رہے تھے اور چینی مارکیٹ سے غائب ہونے دی۔ کیا صرف 34افراد ہی چینی کی سٹہ بازی کر رہے ہیں۔ شوگر ملیں کیا کر رہی ہیں ان کی مانیٹرنگ کیوں نہیں کی گئی۔ حکومت جب تک انصاف کا ترازو نہیں پکڑے گی اور صرف ڈیلرز کے خلاف ہی کارروائی کی جائے گی تو مل مالکان بچتے رہیں گے۔ یاد رہے ملک میں چینی کی قیمت بڑھنے سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ حکومت کو اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئے۔ عام آدمی اور چینی کا کمرشل استعمال کرنے والوں کے لیے چینی کی قیمتوں میں فرق رکھنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ جبکہ شوگر مل مالکان کولڈ ڈرنکس بنانے والی فیکٹریوں، مٹھائیاں بنانے والوں اور بیکری والوں کے ساتھ بیٹھ کر انکے استعمال کے لئے چینی کی قیمتوں کا تعین کمرشل بنیادوں پر کریں۔ ایک جانب ملک میں بجلی مہنگی کی جارہی ہے دوسری جانب سٹیٹ بینک کو خود مختاری دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی بنایا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں ملک کے غریب عوام کہاں جائیں گے۔ گزشتہ روز کین کمشنر پنجاب نے صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنر حضرات کو پنجاب حکومت کی ہدایات پر مبنی مراسلہ گزشتہ روز ارسال کیا جس میں کہا گیا کہ چینی کی رسد کو برقرار رکھنے پر فوکس رکھا جائے اور کسی بھی صورت میں اسکی قلت نہیں ہونے دی جائے۔ شوگر ملیں چینی دینے کی پابند ہیں اگر شوگر ملیں چینی نہیں دیں گی تو قانون کے مطابق شوگر ملوں سے چینی اٹھائی جائے گی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا لیکن اس کے باوجود مقامی مارکیٹ میں صرف ایک روز میں 100کلو چینی کی قیمتوں میں 1200روپے کے اضافہ سے حکومت کی رٹ پر سوال اٹھ رہا ہے۔ شوگر ڈیلرز نے کہا ہے کہ حکومت نے چینی کے تاجروں کے خلاف غلط ایف آئی آر درج کی ہے۔ چینی کا کوئی تاجر منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں۔ ہم حکومت کے اقدام کے خلاف اعلیٰ عدالتوںسے رجوع کریں گے۔ اس صورتحال پر کسان تنظیموں نے حکومت کی جانب سے شوگر مافیا کے خلاف کارروائی کا خیر مقدم کیا ہے۔ کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حاجی محمد رمضان نے رابطہ کرنے پر حکومت پر زور دیا ہے کہ شوگر مافیا کے خلاف جو ایکشن لیاگیا ہے اس پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے۔ چینی کے سٹاک ہولڈرز کے خلاف بلاامتیاز سخت احتساب کیا جائے اور شوگر ملوں میں چینی کے سٹاک کا بھی آڈٹ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جن شوگر ملوں نے کسانوں کی ادائیگی روک رکھی ہے حکومت ان کے سٹاک سے چینی اٹھا کر فروخت کرے اور گنے کے کسانوں کو ادائیگی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں کے دور میں اور موجودہ حکومت کے دور میں چینی کی درآمد اور برآمد پر جو اربوں روپے کی سبسڈی دی گئی اس کا بھی فرانزک آڈٹ کیا جائے۔ عوامی حلقوں نے نوائے وقت فون کر کے کہا ہے کہ حکومت چینی مافیا کو قانون کے مطابق سخت سزائیں دے اور چینی کی قیمتوں کو نیچے لانے کے لئے موثر اقدام کرئے رواں سال جنوری میں ایک کلو چینی کی ایکس مل قیمت 71روپے کے لگ بھگ تھی اور پرچون سطح پر 73روپے تھی تو پھر کیا قیامت آئی کہ چینی کی پرچون پر قیمت 100روپے تک چلی گئی۔ حکومت رمضان شروع ہونے سے قبل ایک کلو چینی کی قیمت 70روپے کے لگ بھگ لانے کے اقدام کرے۔