درخت لگانے کے وعدے سے درخت کاٹنے کا سفر
عمران خان جس وقت الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے تھے اور ظاہر ہے وہ حکومت میں آنے کے اُمیدوار تھے ، اس وقت انہوں نے کچھ اعلان اور وعدے ایسے کیے کہ جس سے لوگ اُن کی طرف کافی مائل ہو گئے تھے۔ خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقے نے انہیں بہت سپورٹ کیا۔
عمران خان کے اعلانات میں سے ایک اعلان یہ تھا کہ وہ درختوں کی سونامی لائیں گے۔ یعنی درختوں کا ایک سیلاب یا طوفان آئے گا جو لوگوں کی صحت اور موسم کو خوشگوار رکھنے کے لیے انتہائی مددگار ثابت ہو گا۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کے وعدے حکومت میں آنے سے قبل اور حکومت میں آنے کے بعد اقدامات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مثلاً درختوں کی سونامی کی بات کریں تو یہاں مجھے نظر آتا ہے کہ درخت کاٹنے کی سونامی ہے مثال کے طور پر میں آپ کو تین واقعات بتاتا ہوں جو انتہائی مایوس کن اور پاکستان تحریک انصاف کے اعلانات کے خلاف ہیں۔ سب سے پہلے والٹن ائیر پورٹ لاہور کو دیکھیں یہاں تقریباً پندرہ سو میچور یعنی پرانے بڑے خوشگوار بہت فائدہ مند اوربہت صحت افزا درخت موجود ہیں۔
یہ درخت والٹن ائیر پورٹ کے مغربی کنارے اور حصے کی طرف ہیں۔ یہاں سات ، آٹھ نرسریاں تھیں اور یہ درخت نرسریاں چلانے والے لوگوں نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں لگائے تھے ۔ اب یہ علاقہ ایک سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے لیے مختص ہو گیا ہے۔ عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں، اللہ کرے کہ یہ پروجیکٹ ختم ہو جائے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ کچھ حکومتی اداروں اور بعض افسروں نے اس میں خفیہ طور پر بھاری رشوت لی ہے اور مجھے نہیں سمجھ آتی کہ والٹن ایئر پورٹ اتنا بڑا علاقہ نہیں ہے یہاں کون سا بزنس ڈسٹرکٹ بنے گا جو کہ پاکستان کی اقتصادی کیفیت کو بدل کر رکھ دے گا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس علاقے کو بدلنے اوریہاں کے خوشگوار، سرسبز ماحول کو ختم کرنے کے لیے تمام محکمے ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ ایئر پورٹ منیجرجس کا تعلق سول ایوی ایشن سے ہے سب راتوں رات اس منصوبے کے حامی بن گئے ہیں اور ان کی وفاداری کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس میں کچھ کاغذوں کا بھی تعلق ہے جو ایک جیب سے دوسری جیب میں گئے ہیں۔ خیال رہے کہ لاہور شاید دنیا کے اُن دو یا تین شہروں میں سے ہے جن میں سب سے زیادہ آلودگی ہے۔ بچوں کو سانس کی بیماریاں ہیں ، بڑوں کو پھیپھڑوں کے کینسر ہیں اور یہاں موٹر سائیکلوں کا ایک طوفان ہے، آلودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ان حالات میں جب ہم یہ درخت کاٹنا شروع کر دیں تو ہم ایک اجتماعی خودکشی کی طرف جا رہے ہیں اور اس کے موذی اثرات دیکھنے میں کچھ دیر نہیں لگے گی۔ سب سے پہلے تو درختوں کا یہ خوبصورت جھرمٹ ہے لگ بھگ پندرہ سو درختوں کو کاٹا جائے گا انتہائی بدقسمتی اور دکھ کی بات ہے کیونکہ میں چار دہائیوں سے اس سرسبز علاقے کو دیکھ رہا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ ہم ائیر پورٹ کسی اور جگہ بھیجیں گے۔
میں لاہور کا رہنے والا ہوں مجھے تو کوئی اور جگہ نظر نہیں آتی۔ اگر جگہ ہے تو بزنس ڈسٹرکٹ وہاں کیوں نہیں جا سکتا۔ دوسری دلیل ہے کہ یہاں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں ، چالیس سال میں نے تو نہیں دیکھا کہ کوئی جہاز شہری آبادی میں ہی گرا ہو۔ تمام دنیا میں ایئرپورٹ ہیں جو شہر کے نزدیک ہیں۔ لندن میں کئی ایئر پورٹ ہیں ، سٹی ایئر پورٹ ہے اور دو ، چار پرائیویٹ ایسی جگہیں بھی ہیں جو شہر کے وسط میں بھی ہیں لیکن جب تمام حفاظتی تدابیر استعمال کی جائیں اور ان پر عمل بھی کیا جائے تو لوگوں کی جان کو خطرہ نہیں ہوتا۔ درحقیقت سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں زیادہ جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
دوسرا علاقہ جو زیرِعتاب یا زیر حرص ہے وہ تونسہ بیراج کا ہے۔ سُنا ہے کہ ایک ایم ۔ پی ۔ اے صاحب نے بڑی تعداد میں درخت کاٹے ہیں اُن کو آگ لگائی ہے یا جو بھی کیا ہے اب وہ یہ حصہ اپنی کھیتی باڑی کے لیے استعمال کریں گے، ظاہر ہے کہ اپنی اقتصادی بہتری کے لیے تو یہ اقتصادی بہتری لوگوں کی جان، لوگوں کی صحت اور لوگوں کی فلاح کی قیمت کے طور پر نہیں ہونی چاہئے۔ سُنا ہے یہ ایم ۔ پی ۔ اے صاحب وزیراعلیٰ پنجاب کے دوست ہیں۔
تیسری مثال ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ہے یہاں چھ ہزار ایکڑ رقبہ جہاں بہترین آم کے درخت تھے، ہزاروں درخت کاٹ کر ٹرالیوں میں لاد کر بیچنے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ چھ ہزار ایکڑ سے جب آپ درخت کاٹیں اور وہ آم کے درخت ہیں تو نہ صرف ملکی آم کی ایکسپورٹ پر بہت بُرا اثر پڑے گابلکہ اس سے سبزہ کم اور آلودگی میں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف یہ معمولی آم نہیں بلکہ ہمارا آم دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے، نہ صرف ایکسپورٹ خراب ہو گی بلکہ مقامی لوگ بھی بہترین آم کھانے سے محروم ہوں گے۔ چند روز قبل کٹے درختوں کی تصاویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہے۔ ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ لوگوں کی صحت تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
عمران خان صاحب اگر آپ نے آئندہ الیکشن لڑنا ہے تو وعدوں کو حقیقت میں بدلیں۔ پچاس لاکھ گھر بنانا ضروری ہے تو درختوں کو بچانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اگر آپ درختوں کو نہیں بچائیں گے اور اسی طرح حرص اور لالچ کے تحت درخت کاٹتے چلے جائیں گے تو پھر آپ خدمت کے بجائے ملک کو شدید نقصان سے دوچارکریں گے۔ امید ہے کہ آپ کا کوئی آدمی اس بات پر غور کرے گا اور آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرائے گا۔
دنیا میں لوگ درختوں کے اردگرد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایک دائرہ بنا لیتے ہیں تاکہ جب درخت کاٹنے والی مشین آتی ہے تو لوگوں کے اس دائرے کی وجہ سے درخت نہ کاٹ سکے لیکن یہ مہذب ملکوں میں ہوتا ہے کہ جہاں حکومت اس قسم کا کوئی منصوبہ سوچے تو پہلے وہاں لوگوں کو اعتماد میں لیتی ہے ، اخباروں میں اس کا ذکر آتا ہے ، اُس کا اعلان آتا ہے اور اگر کوئی بڑا منصوبہ ہو تو اس علاقے کے ٹائون ہال میں صلاح و مشورہ ہوتا ہے۔ اکثریتی رائے اور موضوع پر پوری گفتگو کئے بغیر ایسے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا لیکن یہاں سب حکمران عوام کو اعتماد میں لیے بغیر اپنی مرضی کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں عوامی فلاح و بہبود سے زیادہ ذاتی فلاح و بہبود کی اہمیت ہوتی ہے۔
٭…٭…٭