قومی سیاست کے رنگ ڈھنگ
پی ڈی ایم میں شامل پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے سینیٹ میں انوکھے انداز میں اپنا اپوزیشن لیڈر لانے پر پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے سر براہ مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ کی جانب سے پی پی پی کے اس فیصلے کو پی ڈی ایم کے مشترکہ فیصلوں کے بر عکس قرار دیا گیا ہے ۔
ن لیگ کا کہنا ہے کہ اگر پی پی پی سینیٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر لانا چاہتی تھی تو ہمیں اعتماد میں لیتی، یوں یہ فیصلہ متفقہ اور خوش اسلوبی سے ہوسکتا تھا، جس سے پی ڈی ایم کی ساکھ راکھ میں نہ ملتی۔
یہ حقیقت ہے کہ مفادات کی سیاست نے ہمارے ہاں جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق پروان چڑھنے ہی نہیں دیا ۔ ماضی میں بھی تمام سیاسی اتحاد اسی طرح اپنی اہمیت کھوتے رہے ہیں ،جس طرح اب پی ڈی ایم بڑی سیاسی جماعتوں کی مفادات کی سیاست کی نذر ہو چکی ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار مضبوط ہونا لازم ہوتا ہے تاکہ حکومت تنقید سے بچنے کے لئے کار کردگی بہتر بنائے ۔
ہمارا سیاسی کلچر اس کے بر عکس ہے، عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے اختیارات حاصل ہونے کے بعد مطلق العنان بن جاتے ہیں اور اپوزیشن اپنا جمہوری کردار ادا کرنے کے بجائے حکومت کو گرانے پر توجہ مرکوز رکھتی ہے یوں حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی جمہوری ، اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں سے انحراف کرتے ہیں۔
ہمارے موجودہ حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ ملک کئی بحرانوں کا شکار ہے مگر حکومت ایک تو نا تجربہ کاری کی بنا پر ان بحرانوں پر قابو پانے کی اہلیت نہیں رکھتی، دوسرا وہ اپنی حقیقی ذمہ داریوں پر توجہ دینے کے بجائے صرف اپوزیشن کو دبائو میں رکھنے پر توجہ دے رہی ہے ،یہی رویہ اپوزیشن کا ہے ،جو اٹھتی بیٹھتی حکومت کو گھر بھیجنے کی بھاگ دوڑ میں مصروف نظر آتی ہے۔ ناقص کار کردگی کی بنا پر جمہوریت میں ان ہائوس تبدیلی کا آپشن موجود ہے جو آئینی اور قانونی راستہ ہے مگر ہمارے ہاں قانونی راستے کے بجائے غیر قانونی اقدامات اٹھانے کا رواج زور پکڑچکا ہے، جو کام ماضی میں پی ٹی آئی کرتی رہی ہے، وہی ان دنوں ماضی کی حکمران جماعتیں کر رہی ہیں۔
حکومت ہو یا اپوزیشن، جمہوریت کہیں نظر نہیں آتی ۔ ہر طرف مفادات کا سونامی نظر آتا ہے ۔ پی ڈی ایم کا اتحاد پارہ پارہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی مشاورت کا فقدان ہے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے کہ جو فیصلے مشاورت سے ہو چکے تھے وہ بھی ن لیگ اور پی پی پی کی انا اور مرضی کی نذر ہو گئے ہیں ۔ ایک موقع پر پی ڈی ایم نے سینیٹ میں اتحاد کا مظاہرہ کیا تو حکومت کو شکست ہوئی۔
دوسری مرتبہ باہمی عدم اعتماد کا مظاہرہ کیا گیا تو پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل گئی ، تیسرے واقعہ میں پی ڈی ایم نے اپنے پائوںپر خود ہی کلہاڑا چلا دیا اور اب زخمی پی ڈی ایم خود کو سنبھالنے کے قابل بھی نہیں رہی ،کہا جا رہا ہے کہ پی پی پی نے میدان مار لیا ہے اور ن لیگ منہ تکتی رہ گئی ہے ۔
یہ تبصرہ مفادات کی سیاست کے اعتبار سے درست ہو سکتا ہے مگر اجتماعی سیاست جو پی ڈی ایم کے استحکام کے لئے ضروری تھی ،اس اعتبار سے غلط ہے ۔
پی پی پی کے اس اقدام کے بعد بظاہر پی ڈی ایم کا وجود ختم ہو چکا۔
اگر ختم نہیں ہوا تو بھی خطرے میں ضرور پڑ گیاہے۔ ایک طرف پی پی پی نے پی ڈی ایم پر درپردہ وار کیا وہ بھی اتنی عجلت میں کہ پی پی پی کے اپنے صف اوّل کے درجنوں رہنمائوں کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ دوسری طرف سینیٹ سیکرٹریٹ نے سید یوسف رضا گیلانی کاسینیٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر نوٹیفکشن اتنی سرعت سے جاری کیا کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ پی پی پی کچھ بھی وضاحت کرے ،یہ حقیقت ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی زرداری سیاست کام دکھاگئی۔
یہ سب کچھ اتنی پلاننگ سے ہوا کہ جیسے یہ سب سے پہلے تیار تھا کہ جو فیصلہ جمہوری انداز میں ہونا تھا، وہ خفیہ ہاتھو ں نے درپردہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کی سیاست، جمہوریت ، حکومت، آئین اور قانون ان درپردہ ہاتھوں کے کھلونے ہیں جو بار بار ان کھلونوں کو توڑتے اور جوڑتے چلے آرہے ہیں ۔ وطن عزیز کی یہ سیاست عوام کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ جس ملک میں جمہوریت کے نام پر درپردہ آمریت نافذ ہو وہاں سیاسی انارکی جاری رہتی ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح ان دنوں پاکستان میں جاری ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی عہدوں کے فیصلے بھی درپردہ ہاتھوں نے کرنے ہیں تو ملک میں انتخابات کا ڈھونگ رچا کر بھوکی مرتی قرضوں کے بوجھ تلے دبی قوم کے اربوں روپے کیوں خرچ کیے جاتے ہیں اور عوام کو انتخابات کے نام پر بے وقوف کیوں بنایا جاتا ہے ۔ عوام کو چاہیے کہ اس مفادات اورجبر کی سیاست کو سمجھیں اور آئندہ انتخابات میں ووٹ ضمیر کی آواز پر دیں۔ عوام نے ہوش سے کام نہ لیا تو مفادات کی سیاست کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور عوام مسائل کا شکار بنتے رہیں گے۔