• news
  • image

شہید محمد بشیر کی ماں

میاں جاوید لطیف کے تکلیف دہ جملے کے بعد مجھے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری سے یوم پاکستان کے موقع پر ایک نشست میں ان کی دردناک کہانی سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کے ایام کو یاد کر کے زارو قطار روئے ۔ کہنے لگے کہ قیام پاکستان کی سب سے بڑی نشانی ہروقت میرے ساتھ میری بہن کی شکل میں رہتی ہے جسے دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہیں۔ میرا خاندان بھارت سے پیدل ایک بہت بڑے قافلے میں پاکستان داخل ہوا۔ میری یہ بہن چند ماہ کی تھی اسے بخار ہوا اور بڑھتا گیا مگر دوائی کہاں‘ سڑکوں پر ہر طرف لاشیں تھیں اور دریائے بیاس بھی پھولی ہوئی انسانی لاشوں سے بھرا پڑا تھا۔ میری والدہ نے جب دیکھا کہ میری بہن بخارکی شدت سے نڈھال ہو چکی ہے اور اسے مزید اٹھانا مشکل ہو گیا ہے تو وہ خاموشی سے اسے ایک درخت کے نیچے لٹا کر آ تو گئی کہ میری بہن کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ اب میری ماں سے چلا نہ جائے وہ چار قدم آگے کی طرف اٹھائے تو دو قدم پیچھے ہٹ کر میری بہن کو دیکھنے لگ جائے۔ ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری مرحوم نے بتایا کہ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں قافلے کو چھوڑ کر بھاگتا ہوا بہن کو اٹھا لایا ۔ دو روز مزید لگے اور ہم پاکستان پہنچ گئے‘ میری بہن بچ تو گئی مگر بخار نے اسے ذہنی طور پر مفلوج کردیا‘ وہ آج بھی قیام پاکستان کی نشانی کے طور پر زندہ ہے۔ آج 74 سال گزرنے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود جہاں دشمن کو ہضم نہیں ہو رہا وہاں پاکستان کے اندر موجود بعض عناصر کو بھی مسلسل اذیت دے رہا ہے۔ قربانیوں اور شہادتوں کا لامتناہی سلسلہ آج بھی جاری ہے اور میں اکثر اوقات یہ سوچ کر اطمینان میں آ جاتا ہوں کہ جب میدان حشر میں شہداء کا مقدس خون اپنے اجر کے لئے اﷲ پاک کے حضور پیش ہو گا تو خدا ئے ذوالجلال اور غفور الرحیم کے کرم کی بارش کیا ہو گی اورپھر اس مقدس دھرتی کا برا سوچنے والوں اور اسے نقصان پہنچانے والوں کے چہرے کس قدر سیاہ ہوں گے۔  ابدالی روڈ پر نوائے وقت کے آفس جاتے ہوئے جب میں روزانہ ایس پی چوک سے گزرتا ہوں تو میری بائیں جانب ایس ایس پی ہائوس کی دیوار پر شہدائے پولیس کی تصاویر سے مزین ایک طویل دیوار نظر آتی ہے۔ ان میں اکثریت جوانی میں شہید ہونیوالوں کی ہے۔ یہ سماج دشمن عناصر کی سفاکی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ یہی خون ہے جس کی بدولت ہم مکمل طور پر نہ سہی مگر جزوی طور پر ضرور سکون کی نیند سوتے ہیں۔
………………… (ختم شد) 

epaper

ای پیپر-دی نیشن