اپوزیشن ارکان کی کرونا ویکسین لگانے کے طریقہ پر تنقید
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی طرف سے کرونا ویکسین لگا نے کے طریقہ کار پر تنقید، حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو ’’انگیج‘‘ کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کی تحریک پیش کردی گئی۔ جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے مسلسل اجلاس کا آغاز تاخیر سے ہونے کا مسئلہ اٹھا دیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو ایک گھنٹہ دس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے بلوچستان کے پانی کے حصے اور اس کی تقسیم کے حوالے سے ارسا سے آئندہ اجلاس میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اجلاس کے دوران ارکان کی طرف سے کرونا ویکسین لگانے کے طریقہ کار اور ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے ’’شدید خدشات‘‘ کا اظہار کیا گیا۔ ارکان نے ملک میں لگنے والی کرونا ویکیسن کی تعداد کو ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ قرار دیا۔ (ن) لیگ کے رکن شیخ روحیل اصغر نے ملک استعمال ہونے والے فیس ماسک کو ’’ناقص ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم جو ماسک استعمال کر رہے ہیں یہ ہمیں کرونا سے بچا ہی نہیں سکتے تو انہیں استعمال کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی حنا ربانی کھر نے بھی کرونا ویکسی نیشن کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اسی پر ’’خوشیاں‘‘ منا رہی ہے کہ ہم نے پانچ لاکھ ویکسینز کا آرڈر دے دیا ہے۔ بتائیں کہ کیا یہ ہماری آبادی کے لیے کافی ہے یہ تو ہماری آبادی کا 1.8فیصد بھی نہیں بنتا ہم ایٹمی طاقت ہیں اور ابھی تک جتنی ویکیسن لی ہیں وہ ’’بھیک ‘‘میں لی ہیں۔ انہوں نے حکومت کو ان کی ’’ذمہ داری کا احساس دلایا۔ پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر نوشین حامد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت خود بہت ویکسین تیارکر رہا ہے۔ اسلئے اسے کم قیمت پرویکسین مل جاتی ہے۔ ڈرپپ نے چار ویکسین کی منظوری دی ہے جس میں دوچینی ویکیسن شامل ہے۔ سپوتنک اور آکسفورڈ کی ویکسین کی درآمد کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ روسی ویکیسن کیلئے ڈریپ کے فارمولاکے مطابق قیمت کا تعین کیا گیا ہے۔ انہوں نے ارکان کو ’’مطمئن‘‘ کر نے کی بھر پور کوشش کی لیکن ارکان ان کے جواب سے مطمئن ہو تے نظر نہیں آرہے تھے۔ جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے مسلسل اجلاس کا آغاز تاخیر سے ہونے پر تنقید کی اور کہا کہ اجلاس تاخیر سے شروع ہوتا ہے اور ہمارے سولاوں کے جواب رہ جاتے ہیں۔حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو ’’انگیج‘‘کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کی تحریک پیش کردی جس پر اپوزیشن نے خوب تنقید کی اور اس حوالے سے پہلے سے موجود کمیٹی کی ’’کارکردگی‘‘کی تفصیلات کا مطالبہ کیا گیا۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے تحریک پیش کی۔ انہوں نے اپوزیشن کو مشاورت کی پیش کش کی اور سڑکوں اور میڈیا میں جانے کی بجائے پارلیمنٹ میں’’ مسائل حل کرنے ‘‘کا مشورہ دیا۔