این اے 75،10اپریل کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا فیصلہ برقرار
اسلام آباد (اعظم گِل) سپریم کورٹ نے ڈسکہ این اے 75 دوبارہ انتخابات کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کی اپیل مسترد کردی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حلقہ میں مناسب سکیورٹی انتظامات نہ کرنا الیکشن کمیشن کی غلطی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران لیگی ایم این اے شیزا فاطمہ کمرہ عدالت میں موبائل استعمال کرتی رہی۔ جس پر پولیس اہلکاروں نے شیزا فاطمہ کو موبائل استعمال کرنے سے روک دیا۔ الیکشن کمشن کے وکیل نے موقف اپنایا کہ آئی جی پنجاب اور دیگر حکام نے فون نہیں سنے، 13 پولنگ سٹیشنز پر پولنگ معطل رہی۔ فائرنگ کے واقعات پورے حلقے میں ہوئے۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاعدالت نے پولنگ سٹیشنز کی گنتی نہیں کرنی۔ قانونی نقاط بیان کریں جو ضروری نوعیت کے ہیں۔ صرف ان دستاویزات پر انحصار کریں جن کی بنیاد پر کمشن نے فیصلہ دیا۔ وکیل نے کہا الیکشن کمیشن کے فیصلے میں منظم دھاندلی کا ذکر نہیں۔ الیکشن کمیشن نے منظم دھاندلی کا کوئی لفظ نہیں لکھا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ قانون کی خلاف ورزیوں پر تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دیتے ہوئے کہا الیکشن کمشن نے انتظامیہ کو سنے بغیر ہی فیصلہ کر دیا۔ حلقے میں حالات خراب تھے یہ حقیقت ہے۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ تمام پارٹیوں کو مقابلے کے لیے مساوی ماحول نہیں ملا۔ ووٹرز کے لیے مقابلے کے مساوی ماحول کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ علی اسجد ملہی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ پریذائیڈنگ افسروں کیساتھ پولیس سکواڈ نہیں تھے۔صرف ایک پولیس گارڈ پریزائیڈنگ افسر کیساتھ تھا۔ نجی طور پر حاصل کی گئی گاڑیوں میں وائرلیس سسٹم نہیں تھا۔ انتحابی مواد پہنچانا اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر کا کام ہے۔ الیکشن کمشن نے پریذائیڈنگ افسروں کو ریکارڈ ساتھ لانے کا کیوں کہا؟۔ جسٹس منیب اختر نے کہا انتحابی مواد تاخیر سے کیوں پہنچا؟ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا انتحابی مواد پریزائیڈنگ افسر ہی واپس لیکر آئے تھے۔ علی اسجد ملہی کے وکیل نے کہا پریزائڈنگ افسروں کو کون کہاں لیکر گیا تھا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ کیا فرشتے ان افسروں کو لے کر گئے تھے۔ اس حوالے سے کسی نے بھی تحقیقات نہیں کیں۔ پریزائڈنگ افسروں کی گمشدگی کے ذمہ دار سامنے آنے چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا20 پولنگ سٹیشن پر قانون کی خلاف ورزیاں تو ہوئی ہیں۔ وکیل شہزاد شوکت نے کہا متنازعہ 20 میں سے 14 پولنگ سٹیشن کے نتائج سے نوشین افتخار مطمئن تھیں۔ کل کہا گیا رینجر تعینات نہیں تھی۔ الیکشن سے 14 روز قبل رینجر تعیناتی کا ذکر ہوا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا الیکشن کمیشن کے مطابق رینجر صرف گشت کر رہی تھی۔ جس پر الیکشن کمیشن کے ڈی جی لا محمد ارشد نے عدالت کو بتایا کہ 25 پولنگ سٹیشنز پر رینجر موجود تھی۔ لاپتہ پریزائیڈنگ افسروں کے پولنگ سٹیشنز پر بھی رینجرز تھی۔ وکیل شہزاد شوکت نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے آئی جی کی رپورٹ کو غلط کہا، سمجھ نہیں آ رہا آئی جی کی رپورٹ کو غلط کس بنیاد پر کہا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا فائرنگ سے 2 افراد قتل اور ایک زخمی ہوا، الیکشن کمیشن ڈسکہ میں مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔ وکیل شہزاد شوکت نے کہا گوجرانوالہ کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ 47 فیصد تھا، ضمنی الیکشن ڈسکہ میں ٹرن آئوٹ 46.92 فیصد رہا جسے کہا گیا کم ہے۔ الیکشن کمشن کا موقف غلط ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آ سکے۔ این اے 75 میں 2018 کے الیکشن میں ٹرن آئوٹ 53 فیصد تھا، فائرنگ کے صرف 5 مقدمات درج ہوئے ہیں، مقدمات کے مطابق فائرنگ صرف 19 پولنگ سٹیشنز پر ہوئی، 24 فروری کو دوبارہ پولنگ کا بیان حلفی دیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا24 کو بیان حلفی آیا اور 24 کو فیصلہ ہوگیا۔ آپکو بیان حلفی پر دلائل دینے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ دوبارہ پولنگ کے نوشین افتخار کے بیان حلفی کا جائزہ نہیں لینگے۔ الیکشن کمشن کا کام ہے شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے۔ وحیدہ شاہ نے پریزائیڈنگ افسر کو تھپڑ مارا تھا، پریزائیڈنگ افسر جس نے بھی غائب کیے اس نے انتخابی عمل کو دھچکا لگایا، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمشن نے جواب 23 پولنگ سٹیشنز پر مانگا تھا۔ سمری انکوائری میں بھی پولیس اور انتظامیہ کو سننا ضروری تھا۔ دوبارہ پولنگ کے لیے پی ٹی آئی کو نوٹس کرنا ضروری تھا۔ ماضی میں بھی سمری انکوائری میں سب کا موقف سنا گیا۔ ڈسکہ شہر سے 2018 میں مسلم لیگ (ن) کو 24 ہزار ووٹ ملے تھے۔ ضمنی الیکشن میں ڈسکہ سے (ن) لیگ کو 21ہزار ووٹ ملے۔ فائرنگ کے باوجود صرف (ن) لیگ کو ووٹ پورے ملے۔ فائرنگ اور قتل و غارت کا فائدہ کس کو ہوا تعین کرنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہونے کی بجائے حقائق چھپا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام تھا آئی جی سمیت دیگر افسروں سے تحقیقات کرتا۔ الیکشن کمیشن میں سماعت کے بعد نوشین افتخار نے بیان حلفی دیا۔ الیکشن کمیشن نے کراچی میں 11.92 فیصد پولنگ کو بھی منظور کیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نتائج متاثر ہوں تو دوبارہ پولنگ ہو سکتی ہے، ایک بلڈنگ میں 10 پولنگ سٹیشنز بھی دکھائے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اپنے کاغذات میں یہ تفصیلات درج ہیں۔ وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت دس منٹ کیلئے بر خاست کی گئی۔ جب عدالت دوبارہ آئی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیس کی سماعت کے دوران تمام وکلا نے بہت اچھے دلائل دیے لیکن عدالت نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے اور تمام حقائق کے پیش نظر الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف اپیل کو منظو ر نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دے رہے ہیں۔علاوہ ازیں مریم نواز نے کہا ہے کہ ڈسکہ میں صرف ری الیکشن سے بات نہیں بنے گی۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو ووٹ چوری کرنے کا حساب دینا ہو گا۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ثابت ہو گیا عمران خان اور اس کی جعلی حکومت نے ڈسکہ کے عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام شیروں کو مبارکباد جنہوں نے نہ صرف ووٹ چور ٹولے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اپنے ووٹ پر پہرہ بھی دیا۔ شاباش ڈسکہ والو‘ شاباش! شاباش نوشین۔ دوسری جانب مریم نواز کے گلے کے درد اور بخار میں بہتری پیدا ہو گئی ہے۔ وہ سیاسی مصروفیات جلد دوبارہ شروع کرینگی۔
اسلام آباد (نامہ نگار+مانیٹرنگ نیوز) چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے سیکرٹری الیکشن کمشن کو این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کو شفاف اور غیرجانبدارانہ بنانے کے لیے انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمشن پنجاب کا دفتر ہفتے اور اتوار کو بھی کھلا رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ کے متعلقہ ونگز بھی ہفتے اور اتوار کو کھلے رکھے جائیں۔ سکندر سلطان راجا نے سیکرٹری الیکشن کمشن کو ہدایت کی کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کریں تاکہ این اے 75میں ضمنی انتخاب صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونا یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے سیکرٹری الیکشن کمشن کو فوری طور پر لاہور پہنچنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ضمنی الیکشن کے دوران جو کوتاہیاں ہوئیں وہ دوبارہ نہ ہوں۔