مجید نظامی کی سوچ کا محور اسلام اور پاکستان تھا
لاہور(نیوز رپورٹر) مجید نظامی کی سوچ کا مرکزومحور اسلام اور پاکستان تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا کام لیا اور اس کے اسلامی نظریاتی تشخص کے مخالفین کا سخت محاسبہ کیا۔ مجید نظامی نے زندگی بھر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے انہیں مجاہد پاکستان کی سند اور تلوار عطا کی تھی۔ مجید نظامی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر بھارت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم رکھنے کے مخالف تھے۔وہ زندگی بھر قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مادرملتؒ کے افکارونظریات کی ترویج میں مسلسل کوشاں رہے۔ موجودہ حالات میں مجید نظامی جیسی شخصیت کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ مجید نظامی اپنے افکارونظریات کی بدولت ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ان خیالات کااظہار مقررین نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ‘ لاہور میں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ‘ آبروئے صحافت ‘ رہبرپاکستان اور سابق چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی کے 93ویں یوم ولادت کے موقع پر خصوصی تقریب کے دوران کیا۔ اس تقریب کی کارروائی نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے فیس بک پیج اور یو ٹیوب چینل پر بھی دکھائی گئی۔ قاری محمد دائود نقشبندی نے تلاوت کلام پاک حافظ مرغوب احمد ہمدانی نے نعت رسول مقبولؐ سنانے کی سعادت حاصل کی۔پروگرام کی نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیے۔ وائس چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ میاں فاروق الطاف نے کہا کہ مجید نظامیؒ کی زندگی کا محور اسلام ، پاکستان ، قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ اور دوقومی نظریہ تھا۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی میں کچھ نہیں تھا اور انہی کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی قربان کر دی۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ مجید نظامی کی زندگی خدمات اور جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے۔ میرے لئے اس داستان کے دو پہلو سب سے اہم ہیں ۔ اول نظریۂ پاکستان کا تحفظ ، وہ ایک ادارہ ساز شخصیت تھے۔ انہوں نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ، تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ، ایوان اقبال ، ایوان قائداعظمؒ جیسے ادارے بنائے۔دوسرا اہم پہلو آزادیٔ صحافت کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ ہمیشہ حق وصداقت کا علم بلند کیا۔ سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ مجید نظامی محب وطن پاکستانی تھے ۔ وہ جرأت مند انسان اور اپنا موقف بغیر کسی خوف کے بیان کر دیا کرتے تھے۔پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے ساتھ ان کی اٹوٹ وابستگی آخر تک قائم رہی۔سینئر صحافی اور کالم نگار سعید آسی نے کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے، حکومت اس ادارے کی سرپرستی کرے۔ موجودہ ملکی صورتحال میں امام صحافت اور قومی مفکر ومدبر مجید نظامی کے پیغام کو اجاگر کرناوقت کی اہم ضرورت ہے۔ بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ مجید نظامی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ غق گو انسان اور ایک نظریہ کا نام تھے۔ ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ مجید نظامی نے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کا کردار نہایت جرأت سے ادا کیا۔میاں ولید احمد شرقپوری نے کہا کہ مجید نظامی کی زندگی کا ہر لمحہ دینِ مصطفی ؐ کی حقانیت واضح کرنے میں گزرا ۔ وہ ایک سچے اور کھرے پاکستانی ، پکے مسلمان اور نبی کریم ؐ کے عاشق تھے۔ ملک غلام ربانی نے کہا کہ مجید نظامی نے اپنے قلم سے ہمیشہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کا کام لیا۔ان کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ صرف پاکستان تھا۔ میاں مسعود احمد پوری نے کہا کہ مجید نظامی ایک نڈر اور بے باک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ نظریۂ پاکستان کے سب سے بڑے علمبردارتھے۔ ڈاکٹر پروین خان نے کہ مجید نظامیؒ چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ان کی سوچ کا مرکز ومحور پاکستان اور پاکستانیت تھا۔ بیگم صفیہ اسحاق نے کہا کہ مجید نظامی اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ تھے۔ تحریک پاکستان میں بطور طالب علم انہوں نے اپنے بھائی حمید نظامی کے ساتھ ملکر کام کیا، قیوم نظامی نے کہا کہ مجید نظامی کلمہ حق کہنے والے مجاہدِ صحافت تھے۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں لیکن ہمارے دلوں میں بستے تھے۔طیبہ ضیاء چیمہ نے کہا کہ آبروئے صحافت مجید نظامی کی جگہ نہ کوئی لے سکا اور نہ لے سکے گا۔ آپ نظریۂ پاکستان کے محافظ تھے۔میاں حبیب اللہ نے کہا کہ مجید نظامی ؒدیو مالائی شخصیت اور ایک نظریے کا نام تھا۔وہ نظریۂ پاکستان کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر غزالہ شاہین وائیں نے کہا کہ مجید نظامی کی قومی ملی وصحافتی خدمات بے مثال ہیں۔آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ شاہد رشید نے کہا کہ مجید نظامی حق بات کہنے والے انسان تھے ۔ مجید نظامیؒ کے افکارونظریات زندۂ جاوید ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔پروگرام کے دوران ڈاکٹر مجید نظامیؒ کے93ویں یوم ولادت کی مناسبت سے میاں فاروق الطاف، سینیٹر ولید اقبال، سعید آسی، بیگم مہناز رفیع ، بیگم صفیہ اسحاق و دیگر مہمانان گرامی نے کیک کاٹنے کی رسم ادا کی۔