پی ڈی ایم سے پی پی کی فراغت کے امکانات بھی بڑھ گئے
لاہور (تجزیہ: ندیم بسرا) پی ڈی ایم سے اے این پی کی علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی کو اتحاد سے فارغ کئے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جس کے بعد اپوزیشن اتحاد صرف کاغذوں تک محدود ہوجائے گا اور حکومت ایک بار پھر اپوزیشن کو ایک اور محاذ پر شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کچھ روز سے مریم نواز کی خاموشی یہی عندیہ دے رہی تھی کہ شاید وہ کسی ڈھیل کے انتظار میں ہیں اور دوسری جانب اپوزیشن اتحاد میں ہلکی پھلکی سرد جنگ جاری تھی۔ مگر مریم نواز کو اپنی خاموشی قبل از وقت ہی توڑنا پڑے گی کیونکہ اے این پی نے پی ڈی ایم سے اپنے راستے جدا کر لئے ہیں جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے پاس ووٹ کو عزت دو کا نعرہ زندہ رکھنے کے لئے صرف ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ پی پی کو اس اتحاد سے فارغ کردے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پی پی کو دئیے جانے والے نوٹس کا جواب دینے سے یہ کہہ کر انہوں نے انکار کردیا کہ وہ ایک علیحدہ جماعت ہیں کسی کے ماتحت نہیں۔ دوسری جانب پی پی کی طرف سے اپوزیشن لیڈر کے لئے یوسف رضاگیلانی کی درخواست چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی کو دینا بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پی پی نے اپنا راستہ منتخب کر لیا ہے۔ اس کے بعد پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) اس کو علیحدہ کرسکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا اظہار دبے دبے الفاظ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ بھی کرچکے ہیں کہ وہ پی پی کو علیحدہ کردیں گے۔ اس صورت حال میں جب اے این پی علیحدہ ہوگئی ہے اور پی پی کا اپوزیشن لیڈر کے لئے سینٹ کے چئیرمین سے ملنا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ جو دبائو پی ڈی ایم نے حکومت پر بنایا تھا وہ اب ختم ہوتا جارہا ہے تو مسلم لیگ (ن) کے پاس اس آپشن کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ وہ اس کو اختیار کریں۔