ملک کی سیاسی حقیقتیں اور ضرورتیں!!!
سابق وزیراعظم اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نون خود اسمبلیوں سے استعفے دینا نہیں چاہتی اور استعفوں کا ملبہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی پر گراتے ہوئے صرف ہمیں قصور وار ٹھہرانا چاہتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین مستعفی ہو بھی جائے تو پاکستان مسلم لیگ نون استعفیٰ نہیں دے گی۔ ہم تمام معاملات کا جائزہ سی ای سی میں لیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ان دنوں مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔ بالخصوص پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے ذریعے میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کی خواہشات پر مبنی بیانیے کو رد کر کے ایک سیاسی تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو میڈیا کی سطح پر بہرحال مسائل کا سامنا ضرور ہے۔ چونکہ نون لیگ اور ملک میں نون لیگ کے ہم خیالوں اور قومی خزانے کو لوٹنے والے دیگر گروہوں کو یہ ناگوار گذرا ہے کہ آصف علی زرداری نے ایک سیاسی پلیٹ فارم پر مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر زور دیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے اس بیانیے کے بعد راہیں جدا ہونا شروع ہوئیں اور پھر نون لیگ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا یا یوں کہیے کہ ہمیشہ کی طرح میاں نواز شریف کے خریدے ہوئے جانثاروں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے کردار کو منفی انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ نون لیگ کی ناراضی کی وجہ تو "باؤ جی" کے ذاتی مفادات کی حفاظت نہ کرنا ہے۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی اپنی حریف سیاسی جماعت کی بیرون ملک بیٹھی قیادت اور اندرون ملک کرپشن مقدمات میں الجھی قیادت کی حفاظت کے لئے اپنا کندھا کیوں پیش کرے۔ دونوں جماعتوں کے مابین دوریوں کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی استعمال نہیں ہونا چاہتی اور نون لیگ ہر حال انہیں استعمال کرنا چاہتی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے حالیہ فیصلوں اور طرز سیاست کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں موجود تمام سیاسی حقیقتوں کو جانتے ہوئے سیاسی مستقبل کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جان چکی ہے کہ خطے میں بدلتی صورتحال اور ملک میں سیاست کے لئے کن معاملات میں کن سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا ہے، ملک کی سیاسی ضرورتیں کیا ہیں، ملکی کی دفاعی ضرورتیں کیا ہیں۔ پیپلز پارٹی سمجھ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سب اداروں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے اور اداروں کے ساتھ غیر ضروری محاذ آرائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب یہ طرز سیاست کسی کو برا لگتا ہے تو کیا پاکستان پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں کو کسی بھی قسم کی حکمت عملی بنانے سے روکا ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی مستقبل کی تلاش میں ہے۔ پیپلز پارٹی اس وقتی طور پر اقتدار میں کسی بھی قسم کی شراکت داری کے لئے نہ تو سنجیدہ ہے نہ اس حوالے سے کوئی کام کر رہی ہے۔ بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں اس نے پاکستان میں سیاسی حقیقتوں کو سمجھ اور جانا لیا ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ان سیاسی حقیقتوں کو سمجھے بغیر ملک میں سیاست نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سیاسی ماحول اور اسٹیبلشمنٹ بھی بڑی حقیقت ہے۔ جو کوئی بھی ملک کی سیاسی حقیقتوں کو نظر انداز کرے گا اس کے لئے طویل عرصے تک ملک کی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ نون ملک میں موجود حقیقتوں سے انکاری ہے وہ ملک میں اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا چاہتی ہے، ملک کو اپنی مرضی کے نظام سے چلانا چاہتی ہے اور وہ اپنے من پسند افراد ہے ساتھ ہی نظام کو چلانا چاہتی ہے۔ جو لوگ ان کی مرضی کے مطابق ان کے مفادات کے مطابق کام نہ کریں بھلے وہ درست سمت میں ہی کام کر رہے ہوں وہ انہیں ہٹانے کے لیے غیر آئینی و غیر قانونی راستے اختیار کرتے وقت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے۔ بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے پی ڈی ایم کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ساتھ کیا ہے۔ نون لیگ کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر دور میں نون لیگ کو جگہ دی ہے۔ دو ہزار آٹھ میں بھی انہیں جگہ دی اور اب بھی پی ڈی ایم کا خاکہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے بنایا تھا۔ پی ڈی ایم کا خاکہ بنانے کے بعد پی ایم ایل این کے ساتھ لے کر چلے لیکن پی ایم ایل این نے ایک مرتبہ پھر اس سیاسی اتحاد کو اپنی تاریخ کے مطابق ذاتی مفادات کی نذر کر دیا۔ اور انہوں نے پی ڈی ایم میں ملک سے مخلص لوگوں کے بجائے اپنی ذات سے مخلص پوگوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ پی ڈی ایم میں بڑی تعداد میں شامل سیاسی جماعتوں میں نون لیگ نے ملک میں بہتر سیاسی نظام کی طرف بڑھنے کے بجائے ذاتی مفادات کو مقدم جانا اور اسی ایجنڈے کے تحت کام کیا۔ اب موجودہ حالات میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو یہ سوچنا ہے کہ کیا ملک ایسے ہی تقسیم شدہ اور تنازعات کے شکار نظام ہے ذریعے چلایا جا سکتا ہے۔ یقیناً نہیں تمام سیاسی جماعتوں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملک آگے کیسے بڑھے گا۔
خطے کی صورتحال دن بدن بدل رہی ہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال بہت خوفناک ہے اس کی ذمہ دار ماضی کی حکومتوں پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ معاشی صورتحال خراب ہونے میں پاکستان تحریکِ انصاف بھی برابر کی ذمہ دار ہے کیونکہ لگ بھگ پونے تین سال کے بعد موجودہ حکومت سارا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر نہیں ڈال سکتی بلکہ اس نے بھی اپنے دور حکومت میں معیشت خراب کرنے میں حصہ خوب ڈالا ہے۔ حکومت کے غلط فیصلوں سے معاشی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ معاشی انڈیکس کو دیکھیں تو پاکستان آخری نمبروں پر نظر آتا ہے۔ اس خراب معاشی صورتحال کے ذمہ دار سیاست دان اور ان کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹس بھی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سب سے پہلے نمبر پر آزاد و خودمختار عدلیہ ہے۔ عدلیہ کو ہر قسم کے پریشر سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں موجود سیاسی جماعتوں کو ملک میں آئین سازی اور قانون سازی پر کام کرنے کی ضرورت ہے تیسرے نمبر پر احتساب کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور بیوروکریٹس کو آزاد اور شفاف احتساب کے لئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سب ایک دوسرے پر الزام دھرتے رہیں گے تو اس طرح یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اگر ہم اپنے آپ کو اس صورتحال سے نہ نکال پائے تو ہمارے لئے مسائل بڑھ جائیں گے۔ ہمیں مسائل سے نکلنے کے لئے اپنے اداروں اور اس کے ساتھ ساتھ سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔