بلاول بھٹو جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں
پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری بی بی شہید کے نظریئے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس وقت جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی تاریخ کو جاننے والے اس بات کو جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی واحد ملک گیر جماعت ہے جس نے جمہوری تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے ہر طرح کی قربانی دی ہے، یہ بات ن لیگ یا دیگر جماعتوں کے قائدین کو بھی سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت کی بقاء اور تسلسل میں ہی ان کی بقا اور کامیابی ہے۔ ملک اس وقت کسی ایسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کے نتیجے میں جمہوری تسلسل کو نقصان پہنچے اور پھر سب ہی ہاتھ ملتے رہ جائیں یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو جمہوری جنگ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں لڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی اہمیت کو دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا چاہیے۔ دوسری جانب بین الاقوامی میڈیا بھی بلاول بھٹو کی صلاحیتیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلاول بھٹو کی جماعت کی سیاسی حکمت عملی سے ہی جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے کہا ہے کہ انکی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اتحادیوں کو ساتھ رکھیں گے اور ’کسی ایک جماعت کی سائیڈ نہیں لیں گے۔پی ڈی ایم کے اندر تناؤ برقرار ہے جہاں مسلم لیگ ن اس میں فارورڈ بلاک قائم کرنے کا عندیہ دے رہی ہے تو وہیں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے واضح کیا ہے کہ 'ہمیں کسی کو منانے کی ضرورت نہیں اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اگر کارنر کرنے یا دبائو میں لانے کی کوشش کی گئی تو وہ تنہا پرواز کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔بلاول بھٹو نے یہ امیدبھی ظاہر کی کہ ’مولانا صاحب چھوٹے موٹے اختلاف رائے کی وجہ سے اتحاد کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔بلاول بھٹو نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ ’کچھ جماعتیں یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ جیسے پی پی پی نے کوئی ڈیل کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم اس قسم کی سیاست نہیں کرتے۔ میں سمجھتا ہوں ہمیں اس قسم کے غلط الزامات عائد نہیں کرنے چاہیے۔ غلط بیان بازی کسی بھی جماعت کیلئے اپوزیشن کے فائدے میں نہیں۔ اس لیے میں بھی گریز کر رہا ہوں اور آپ جانتے ہیں کہ ہم ہر بات کا اچھی طرح سے جواب دے سکتے ہیں۔ اس لیے اب تک جواب نہیں دے رہا ہوں۔'انھوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو منانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے پی ڈی ایم کا اتحاد برابری کی بنیاد پر مل کر کام کرنے کیلئے بنایا تھا۔ ’امید کرتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمان جلد صحتیاب ہوں گے تاکہ ان سے ملاقات کا موقع ہو۔ مسلم لیگ ن کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ’ ’ہر وقت اور ہر موقع پر آر یا پار کی سیاست نہیں چلتی، چھوٹی چھوٹی وجوہات کی وجہ سے ہمیں اپنے اصل مقصد کو نقصان نہیں پہچانا چاہیے جس کیلئے ہم سب یکجا ہوئے ہیں۔‘‘ادھر سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی وہی چاہتی ہے جو پی ڈی ایم چاہتی ہے۔’اگر کسی چیز پر اختلاف ہو چاہے وہ استعفے ہوں، سینیٹ میں جو پی پی پی نے فیصلہ لیا یا مارچ کا معاملہ ہو، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پی ڈی ایم بحران میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی سٹیج پر جا کر یہ حل ہو جائیگا اور ابھی بھی بات چیت ہو رہی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم کا فارورڈ بلاک نہیں ہے اور اپوزیشن بھی الگ نہیں ہو سکتی۔ فارورڈ بلاک تو ان چھ لوگوں کا بنا تھا انھوں نے دیکھنا ہے کہ وہ کہاں بیٹھیں گے۔‘’ایسا ضرور ہے کہ پارٹیوں میں لیڈر شپ لیول پر تھوڑا عدم اعتماد تو پیدا ہوا ہے اور اقدامات پر بْرا منایا گیا۔ جب بلاول بھٹو زرداری نے یوسف رضا گیلانی کے نام کا اعلان کیا تو رابطہ نہیں کیا گیا اور جب میاں نواز شریف نے اعظم نذیر تارڑکا نام لیا تو رابطہ نہیں کیا۔ اس وقت اگر رابطے ہو جاتے تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔‘پی ڈی ایم کے مستقبل پر ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا صاحب نواز شریف سے بھی بات کر رہے ہیں اور زرداری صاحب سے بھی بات کر رہے ہیں۔ اور یہ کوئی ایسی ناراضی نہیں کہ پی ڈی ایم ٹوٹ جائے۔ اس ضمن میں ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن شاید جلدی میں ہے کہ اس حکومت کو کسی طرح گرا دیا جائے جبکہ ابھی یہ موقع نہیں ہے بلکہ اس حکومت کو اپنی ناقص کارکردگی سے ہی گرنے دیا جاے تو اسکا نتیجہ مستقبل میں زیادہ اچھا نکل سکتا ہے اور بلاول بھٹو اس ضمن میںایک مدبر کا کردار ادا کر رہے ہیں جو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کی جانب رواں دواں ہیں۔ اسکے ساتھ ہی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن کی جماعتیں پی ڈی ایم کو برقرار رکھتے ہوئے حکومتی کارکردگی پر فوکس رکھتے ہوئے دبائو بڑھائے رکھتی ہیں تو اس سے عوامی مسائل حل ہونے کی توقع ہے جس کا فائدہ بہر حال اپوزیشن کو ہو گا ور عوام کی نظروں میں بھی انکی اہمیت میں اضافہ ہو گا اس وقت ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ حکومت کی ناقص کارکردگی ،مہنگائی ،لاقانونیت ناکام داخلہ اور خارجہ پالسی کو بیانیہ بنایا جائے ۔