درخشندہ ستارے
کتاب بینی پر سقراط کا ایک قول ہے کہ’’ اگر آپکے پاس وقت ہے تو دوسرے لوگوں کی تصانیف پڑھو تم بڑی آسانی سے ان چیزوں کو جان لو گے جن کو جاننے کیلئے انہیں سخت مشقت کرنا پڑی اور مشکلات میں سے گزرنا پڑا‘‘ آج کی کتاب جس پر میں بات کرنا چاہتا ہوں اسکی مثال ایسی ہی جیسے جمہوریت کی تعریف ’’عوام سے عوام کیلئے عوام کی بنی ہوئی حکومت ـ‘‘قوم سے قوم کیلئے قوم کی لکھی ہوئی کتاب‘‘ پہلے مجھے اس کتاب کے مشترکہ مصنفین پر بات کرنا چاہوں گا شہر لاہور کی ابلاغی دنیا کے جانفشاں ،ہونہار اور متحرک نوجوانان شہزاد روشن گیلانی اور نوید اسلم ملک کم عمری میں ہی لگن،ہمت اور اولوالعزمی کی بدولت ہر نوجوان ملت کیلئے مثال کی مسند پر جا بیٹھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ باہمی اشتراک سے پاکستان کی تیس کامیاب شخصیات کی داستان زیست رقم کر ڈالی جس میں ان مثالی افراد کے تجربات اور مشاہدات پر مشتمل ’’درخشندہ ستارے‘‘ کے نام سے کتاب شائع کر لی مجھے یہا ں یورپ کے ایک فلاسفر ڈسکریٹ کا بک ریڈینگ پر ایک قول یاد آگیا ’’شخصیات پر کتابوں کا پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے آپ ماضی کے بہترین لوگوں سے ہم کلام ہوں ‘‘ لیکن’’ درخشندہ ستارے ‘‘نے ماضی کے نہیں بلکہ دور حاضر کے بہترین لوگوں کے ساتھ ہم کلامی کا اہتمام کیا ہے اور یہ تیس کامیاب ترین لوگ جو محض اپنی محنت کے بل بوتے پر زیرو سے ہیرو بنے اور آج ہمارے معاشرہ میں کامیابی کی علامت قرار دیئے جاتے ہیں قومی سطح پر ایسی شخصیات کی زندگی کی ریشہ دوانیاں اور تلخ و شریں تجربات و مشاہدات کا نچوڑ کتاب کی صورت میں قلمبند کرنے کا مقصد بڑا واضح اور اہم نظر آتا ہے مصنفین شہزاد روشن گیلانی اور نوید اسلم ملک جو خود بھی نوجوان ہیں چاہتے ہیںکہ ہماری موجودہ اور آنے والی ہر نسل کے ہرسپوت کی خاطر قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنا حصہ ڈال دیں اور ان کو آگاہی دیں جو ان کا میاب لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے جہد مسلسل کے ذریعہ آگے بڑھنے کی سوچ اور لگن پیدا کر لیں نہ کہ خیالی قلعہ تعمیر کر کے ناکام زندگی کو اپنا مقدر بنا لیں اس کتاب کی زینت بننے والے تیس کامیاب افراد کا تعلق ، اساتذہ، ماہرین تعلیم، موٹیویشنل سپیکرز،بیورو کریٹس ،قانون دان، صحافی، ڈرامہ نگار،شاعر ،ایکٹرزاور کاروباری شعبہ جات سے ہے۔ انٹرویوز پر مشتمل کتاب کے اس مجموعہ میںقاسم علی شاہ،یاسر پیر زادہ،طاہر انو ر پاشا،ڈاکٹر ساجد علی،سلمان عابد، طارق صحرائی بلوچ، رانا عدیل ممتاز، حسیب خان،علی عباس،غلام علی ، خالد ارشاد صوفی، ڈاکٹر صغیر احمد ،وہاب یونس عظمت زہرہ اور راقم سمیت و دیگر شامل ہیںکتاب پر شائع شدہ مخصوص تاثرات میں سے اہم ترین تبصرہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے جس میں انکا کہنا ہے’’ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ ہر شہری میں ہونا چاہئے اور میں یہ سمجھتا ہوںکہ ہر فرد کہیں نہ کہیں اپنا حصہ ڈال کر اس ملک کا خیر خواہ بن سکتا ہے۔ امید واثق ہے کہ قارئین کو یہ کتاب آگے بڑھنے ،محنت کرنے اور کامیاب ہونے کا جذبہ فراہم کریگی‘‘۔ نامور سنیئر صحافی اثار رانا کا کہنا ہے ’’اپنا زمانہ آپ کیسے بنایا جاتا ہے یہ مجھ سے بہتر شاید کوئی نہیں جانتا زیرو سے ہیرو کا سفر بظاہر بہت دلکش لگتا ہے لیکن اس دلکش سفر میں پڑنے والے پائوں کے آبلوں اور ہاتھوں میں پڑنے والے چھالوں کو کم لوگ ہی دیکھتے ہیں پاکستان میں سیلیبرٹی اور ہیروز میں فرق کم ہی رکھا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اصل ہیرو گمنامی میں ہی مر جاتے ہیں اور میری نظر میں یہ ایک بڑا المیہ ہے شہزاد روشن گیلانی اور نوید اسلم نے کتاب ترتیب نہیں دی بلکہ ایک احسان کیا ہے۔ کتاب کا انتساب دنیا کے عظیم ترین لیڈر آقائے دو جہاں نبی کریم ؐ کے نام کیا گیا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس بے ہنگم دور میں ہمارے نوجوان جو پہلے سے ہی کتب بینی اور مطالعہ کی دلچسپی سے عاری تھے اب اس خلیج میں اور اضافہ ہو چکا ہے تو اس صورتحال میں مطالعہ کتب کی جانب راغب کرنا بھی موجودہ دور کا چیلنج بن چکا ہے جو کہ اپنی نصابی کتب پر ہی اکتفا کر کے بر ی الذمہ ہوجاتے ہیں یہ بات بھی طے ہے کہ مطالعہ کتاب اور اس میں دلچسپی کی عادت زبردستی نہیں ہوتی اس کیلئے بچوں کی تربیت اور ماحول پیدا کرنا پڑتا ہے قوم کی تعمیری بنیادوں پر تیاری کیلئے حکومت کو اپنی تعلیمی پالیسوں کو از سر نو دیکھنا ہو گا اور ہر چھوٹی بڑی سرکاری و نجی درسگاہوں لائبریری پریڈ کو لازمی کرنا ہوگا جہاں لائبریری محض ایک ماڈل کلاس روم کے کچھ نہیں ہوتی یہاں تک کہ کتب بینی میں دلچسپی لینے والے بچوں کی لائبریری تک رسائی ہی نہیں ہوتی اور یہ پڑھنے پڑھانے کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب ہم سکولوں ، کالجوں ،یونیورسٹیوں کے علاوہ بھی یونین کونسل کی سطح پر محلہ لائبریوں کا قیام عمل میں لائیں گے اور یہ پریکٹس بڑی کامیابی سے امریکہ ،جرمنی،لندن اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے جاری ہے۔زمیں پر دکھتے ہیں لیکن
درخشندہ ستارے ہیں