’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے‘‘
حسن لطیف کی بطور موسیقار پہلی فلم جدائی (1950) تھی لیکن ان کو پہلی کامیابی فلم ’’انوکھی‘‘ سے ملی جو فلم 1956میں ریلیز ہوئی تھی۔ حسن لطیف نے اس فلم میں صرف ایک گانے کی موسیقی ترتیب دی تھی اور یہ گیت زبیدہ خانم نے گایا تھا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ حسن لطیف کا یہ واحد گیت عوام میں بے حدمقبول ہوا۔ اسکے بول تھے ۔’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے‘‘۔ دوستو ! مدعا’گاڑی کے ہلکے ہلکے چلنے کا ہے‘‘۔ ہمارا ملک پاکستان بھی ایک گاڑی کی طرح ہے اور یہ گاڑی بھی دھیرے دھیرے ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے نکال کر بحالی کی سمت پر گامزن کر چکی ہے۔ معاشرے میں عوام کے مہنگائی کے شکوے اور سوشل میڈیا پر ہونیوالے تبصروں کو ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو سرکاری اعداد و شمار خود ثابت کر رہے ہیں کہ ٹماٹر عوام کا منہ لال اور چینی ،زبان کا ذائقہ کڑوا کر رہی ہے۔ ماہرین معیشت کیمطابق حکومت کی کارکردگی ماپنے کے تین پیمانے ہیں جن میں پہلا پیمانہ یہ ہے کہ اس نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے ہو رہے ہیں یا نہیں؟ دوسرا پیمانہ یہ ہے کہ معاشی اشاریے کیا ہیں؟ اور تیسرا پیمانہ بے روزگاری، عوامی معیار زندگی اور مہنگائی ہے۔ جن اعشاریوں کی بنیاد پر حکومت معاشی بہتری کے دعوے کر رہی ہے، وہ مصنوعی اور ناپائیدار ہیں جبکہ بے روزگاری اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مافیاز کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن کیخلاف کارروائی کی جانی ہوتی ہے وہ ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں اور حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلائو اور تباہ کاری نے عالمی سیاست کو سکیڑکے رکھ دیا ہے۔دنیا سے آنے والی بڑی سے بڑی خبر بھی اِسی کے شور میں دب کر رہ گئی ہے، مگر ہمیں اِس صورتحال کا اندازہ اِس لیے نہیں ہو رہا کہ ہم نے کورونا وائرس کو سمارٹ لاک ڈائون سے ڈیل کیا ہے۔ اقتصادی ماہرین ترقی کی شرح کو ملک کی معیشت میں بہتری کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ اس پر ملکی اور غیر ملکی ماہرین متفق ہیں تاہم کچھ کے نزدیک مہنگائی اور افراط زر نے عوام کا بُرا حال کردیا،قوت خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اس لیے یہ خطرے کی بات ہے۔ اصل مسئلہ اُن قرضوں کی واپسی کے درست انتظامات کا ہونا ہے۔اِس ضمن میں ماہرین دو طریقے بتاتے ہیں۔ پہلا ٹیکس جمع کرنے کا نظام اور دوسرا منافع بخش منصوبوں کا جاری رہنا۔ ہمیں فخر ہے کہ مُلکی آبادی کا ساٹھ فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے، لیکن یہی خوش قسمتی اُس وقت بوجھ بن سکتی ہے، جب ان کیلئے روز گار کے مواقع نہ ہوں۔ حکومت کو یہ کریڈٹ تو دے سکتے ہیں کہ وہ اب معیشت پر بہت زیادہ فوکس کر رہی ہے۔ روز مثبت خبریں آرہی ہیں، جن پر بھروسہ نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں لیکن علاقے کے تیزی سے بدلتے حالات دیکھ کر بین الاقومی امور کے ماہرین بار بار اِس امر پر بھی زور دے رہے ہیں کہ عوام کو ایک طویل المیعاد قومی وژن دے دیا جائے تاکہ وہ اسے حاصل کرنے کیلئے اپنی پوری توانائیاں لگا دیں۔ اس وقت ہمارا موضوع سخن معیشت کی ترقی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی معیشتیں کرپشن اور بدعنوانیوں کے ساتھ بھی ترقی کر سکتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسی ممالک جو پاکستان کی ہی طرح غریب اور مفلوک الحال، معاشی اور سماجی بدحالی کا شکار ہیں، لیکن رفتہ رفتہ معاشی اور اقتصادی ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ غربت کا خاتمہ اور آبادی پر کنٹرول کر رہے ہیں، پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنا رہے ہیں تو ہمارا جواب ہو گا کہ ہاں کرپشن کے ساتھ بھی معاشی ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کرپشن ترقی کی راہ میں رکاوٹ ضرور بن سکتی ہے لیکن ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔آج ہم ان ممالک کی معیشتوں کا جائزہ لیتے ہیں جہاں آج بھی کم و بیش اتنی ہی کرپشن اور رشوت ستانی ہے جتنی ہمارے ملک میں، لیکن یہ غریب اور پس ماندہ ملک معاشی اور اقتصادی ترقی کی دوڑ میں پاکستان سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ہم پہلے اس ملک کی مثال لیتے ہیں جو نصف صدی قبل ہمارا ہی ایک حصہ تھا یعنی بنگلہ دیش۔ بنگلہ دیش میں بھی وزیر اعظم قتل ہوا۔ وہاں بھی فوجی انقلاب آئے، آمریت بھی مسلط رہی۔غربت، پسماندگی، آبادی کا دبائو، اور قدرتی آفات کی بھر مار سب ہی مصائب اس ملک نے جھیلے۔ لیکن اب یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ بنگلہ دیشیوں نے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ انکے مسائل اور مصائب کا حل فوجی آمریت میں نہیں بلکہ جمہوریت میں پنہاں تھاگو کہ آج بھی بنگلہ دیش کرپشن سے خالی نہیں ہے لیکن اسکے باوجود جنوبی ایشیا کی گیارہ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سب سے آگے ہے۔برسراقتدار حکمرانوں، آمرانہ قوتوں اور اشرافیہ نے عوام کو یہ کہہ کر بیوقوف بنایا ہوا ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔اس وطن کی نوجوان نسل کو ملک کوآگے لے کر جانے میں ابھی مزید کردارادا کرنا ہے ۔؎
منزل دور تھی اس نے اپنے قدم تیز کیے
راستے بھی حیران رہ گئے
میری اس کڑی مسافت سے