بابا فرید یونیورسٹی اور قبضہ مافیا
تاریخی شہر پاک پتن کو تیس سال قبل ضلع کا درجہ دیا گیا اس کی اپنی آبادی اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے اسکے سرحدی شہروں منچن آباد، حویلی لکھا، بہاولنگر اور بورے والا کی مجموعی آبادی پچاس لاکھ سے زائد ہے جہاں ہائر ایجوکیشن کیلئے کوئی ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وزیراعظم عمران خان کے ہر ضلع میں یونیورسٹی کے ویژن کیمطابق پاک پتن میں بھی یونیورسٹی کے قیام کی ہائر ایجوکیشن سے رپورٹ طلب کی تو ہائر ایجوکیشن نے 21 ستمبر 2020 کو اپنی فزیبلٹی رپورٹ تیار کر دی کہ پاک پتن کی دو تحصیلیں ہیں جہاں گورنمنٹ کمرشل کالج ہوتہ روڈ کی تعداد صرف 2 سو طلبہ ہے جنہیں گورنمنٹ فرید یہ کالج میں وی ٹی آئی کی خالی کردہ عمارت میں شفٹ کیا جا سکتا ہے ہائر ایجوکیشن کی یہ عمارت کمرشل کالج کو دیکر کمرشل کالج کا 7 ایکڑ رقبہ اور ساتھ منسلک صوبائی گورنمنٹ کا 43 ایکڑ رقبہ ہائر ایجوکیشن کو بابا فرید یونیورسٹی کیلئے منتقل کیا جائے۔ اسکے بعد بابا فرید یونیورسٹی کی تکمیل کے پہلے مرحلے پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب بابر حیات تارڑ نے صوبائی حکومت کے یہ پچاس ایکڑا اراضی بابا فرید یونیورسٹی کو ٹرانسفر کرنے کیلئے 27 مارچ 2021ء کو باقاعدہ سرکاری لیٹر جاری کر دیا یہ لیٹر جاری ہوتے ہی پنجاب کی بیوروکریسی میں جیسے کوئی کہرام برپا ہو گیا اور چار دن بعد ہی بیک وقت 31 مارچ 2021ء کو پہلے سیکرٹری صنعت واصف خورشید نے بابا فرید یونیورسٹی کی مخالفت کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب کو لیٹر لکھ دیا کہ کمرشل کالج کی بلڈنگ محکمہ ٹویوٹا کی ہے جسے کسی اور ادارے کو دینے کی روایت نہ ڈالی جائے۔ سیکرٹری صنعت کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکنیکل تعلیم بھی دیہات کیلئے ضروری ہے۔ اسکے بعد اِسی دن سیکرٹری فنانس افتخار علی سہو بھی 31 مارچ کو وزیر اعلی کو لیٹر لکھ رہے ہیں کہ سیکرٹری صنعت بھی بابا فرید یونیورسٹی کی مخالفت کر چکے ہیں اور ضلع لیول پر یونیورسٹی بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ 31 مارچ کو ہی چیرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ عبداللہ خان سْنبل بھی وزیر اعلیٰ کو لیٹر لکھ دیتے ہیں کہ 12 یونیورسٹیاں پہلے ہی بن رہی ہیں لہٰذا بابا فرید یونیورسٹی کے منصوبے کو ختم کر دیا جائے جسکے بعد سیکرٹری قانون بہادر علی خان نے سیکرٹری صنعت سیکرٹری فنانس اور چیئرمین پلاننگ کے خطوط کا حوالہ دیکر دو دن بعد ہی بابا فرید یونیورسٹی کے منصوبے کو سٹینڈنگ کمیٹی آف کیبنٹ فنانس اینڈ ڈویلپمنٹ کو بھجوانے کی تحریری سفارش کر دیتے ہیں اور سیکرٹری ٹو چیف منسٹر عائشہ حمید نے بھی لیٹر لکھ دیا کہ یہ منصوبہ اب کابینہ کی فنانس اینڈ ڈویلپمنٹ کیبنٹ کے سامنے رکھا جائے۔یہ بات سمجھنے سے پہلے کہ پنجاب میں 12 یونیورسٹیوں کے منصوبہ جات پر خاموش رہنے والی بیوروکریسی اچانک ایک ہی دن بابا فرید یونیورسٹی کے منصوبے پر کیسے جاگ جاتی ہے مناسب ہے کہ اب ذرا ذکر ہو جائے بابا فرید یونیورسٹی پاک پتن کی مجوزہ پچاس ایکڑ اراضی کا جس پر یہ یونیورسٹی قائم کرنے کی سابق ڈی سی پاک پتن احمد کمال مان نے پرپوزل بھجوائی تھی اور گزشتہ ماہ اپنی ٹرانسفر کرا بیٹھے انکی پرپوزل کے بعد پنجاب بورڈ آف ریونیو نے یہ پچاس ایکڑ بابا فرید یونیورسٹی کو جاری کئے۔ یہ مجوزہ پچاس ایکڑ عرصہ 22 سال سے سرکاری ریکارڈ کیمطابق ناجائز قابضین کے زیر تصرف ہے جن کو پاک پتن سے ملحقہ ضلع کے ن لیگ کے ایم این اے کی مبینہ حمایت حاصل ہے بیس پچیس سال قبل اس رقبہ پر سمال انڈسٹریل اسٹیٹ کا منصوبہ دیا گیا تھا تب مذکورہ ایم این اے کا بھانجا پاک پتن میں تحصیلدار تعینات تھا اور سمال انڈسٹریل کی بجائے یہ اراضی ایم این اے کے قریبی ساتھیوں کو الاٹ کر دی گئی پھر سمال انڈسٹریل کے منصوبے کو ختم کرنے کیلئے تب ایک ہی برادری کے ایم این اے ایم پی اے اور ڈی سی او نے سات ایکڑ پر کمرشل کالج بنوا دیا اور سمال انڈسٹریل اسٹیٹ کا منصوبہ ختم ہو گیا کیونکہ سمال انڈسٹریل اسٹیٹ قانون کیمطابق پچاس ایکڑ سے کم پر نہیں بن سکتی کچھ سالوں بعد پاک پتن میں تعینات ہونیوالے ای ڈی او ریونیو غلام نبی نے اس اراضی کی الاٹ منٹ قانون کیمطابق ختم کر کے واپس گورنمنٹ کی تحویل میں دے دی لیکن قابضین اس آرڈر کیخلاف ہائی کورٹ میں چلے گئے اور اب صوبائی گورنمنٹ یہ کیس سپریم کورٹ میں لے جا چکی ہے ان بیس سالوں کے دوران قابضین سے یہ پچاس ایکڑ نہ خالی کرائے جا سکے نہ وہاں سمال انڈسٹریل سٹیٹ کا منصوبہ کامیاب ہو سکا اور نہ ہی اب وہاں بابا فرید یونیورسٹی بنتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ن لیگ کے بااثر ایم این اے کے مبینہ حمایتی بارہ تیرہ لوگ یہ پچاس ایکڑ اراضی کاشت کر رہے ہیں اور محکمانہ گرداوری انکے نام جاری ہوتی ہے۔ بابا فرید یونیورسٹی بنائو کے کنوینئر سعید احمد چشتی کا کہنا ہے کہ حکومت اگر یونیورسٹی کے قیام کیلئے سنجیدہ ہے تو بابا فرید ٹرسٹ کے چیئرمین دیوان عظمت چشتی اور جنرل سیکرٹری پیر الطاف حسین ٹرسٹ کی پچاس ایکڑ اراضی بابا فرید یونیورسٹی کو منتقل کرنے کو تیار ہیں۔ صدیوں سے اعلیٰ تعلیم سے محروم لوگوں کے یونیورسٹی کے دیرینہ خواب کو توڑا نہ جائے اور پاک پتن کے عوام کو ہائرایجوکیشن کیلئے فوری طور پر یونیورسٹی مہیا کی جائے۔