کیا ڈسکہ کی جیت مریم کے بیانیے کی فتح ہے
ڈسکہ ضمنی در ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی پنجاب نیشنل پارٹی کی حمایت اور تعاون سے جیت حکومت کیلئے جھٹکے سے کم نہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے 2018ء کے الیکشن سے بھی زیادہ برتری حاصل کی۔ ظاہرے شاہ نے ایک لاکھ ایک 10 ہزار سے سے زائد جبکہ ان کی بیٹی نوشین نے ایک لاکھ سے 10 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ اسد ملہی کو 93ہزار ووٹ ملے، وہ مطمئن ہوں گے کہ 61ہزار سے 93ہزار ووٹ ہو گئے۔ کل کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ 19فروری کو حکومتی ایما پر حلقے میں حالات بگڑے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست اور سپریم کورٹ نے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا فیصلہ برقرار رکھ کر بالکل درست کیا۔ الیکشن کمیشن نے بہترین انتظامات کیے۔ رینجرز نے اب چڑیا تک بھی پھڑکنے نہیں دی۔ پُرامن پولنگ ہوئی۔ ان دنوں میں کینیڈا سے اپنے گھر ڈسکہ آیا ہوا تھا میں نے الیکشن کو مکمل طور پر مانیٹر کیا۔ حکومت کے لیے یہ ایک وارننگ ہے کہ وہ عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری اور دیگر مسائل سے نجات دلائے ورنہ آئندہ الیکشن میں ہر حلقہ این اے 75ثابت ہو سکتا ہے۔ 19فروری کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں خوف اور جبر اور زبردستی ووٹ ڈلوانے ہی کی وجہ تھی کہ خود میرے آبائی قصبہ میترنوالی میں پی ٹی آئی کو ساڑھے انیس سو ووٹ پڑے جبکہ نون لیگ کی نوشین افتخارکو تقریباً پندرہ سو ووٹ پڑے، لیکن 10اپریل کو ہونے والے الیکشن میں جس میں ہماری پنجاب نیشنل پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ الحاق کیا تھا اور میں اس الیکشن میں خود موجود تھا۔ میترنوالی کی عوام نے باقی حلقے کی عوام کی طرح نوشین افتخار کو چارسو ووٹوں کے بھاری مارجن سے میترانوالی کے پولنگ سٹیشن سے جتوایا اور ایک بات یہاں پر میں کہنا چاہوں گا کہ الیکشن رزلٹ آنے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کا بیان سامنے آیا ہے کہ نون جیتی نہیں بلکہ پی ٹی آئی ہاری ہے۔اور دوسرا بیان پی ٹی آئی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے یہ داغا ہے کہ ہمیں یہ الیکشن آر اوز نے ہروایا ہے۔ادھر پی ڈی ایم اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ نیک نیتی، ایثار اور تحمل و برداشت ایسے بڑے اتحادوں کی کامیابی و مضبوطی کے لیے اولین ضرورت اور شرط ہوتی ہے۔ جس کا پی ڈی ایم میں بُری طرح فقدان تھا۔ گزشتہ روز بلاول نے سرِمحفل پی ڈی ایم کے سیکرٹری شاہد خاقان عباسی کا شوکاز نوٹس پھاڑ دیا۔ سی ای سی کے اجلاس میں بلاول کے اس اقدام پر تحسین کرتے ہوئے تالیاں بجائی گئیں۔ ذرا سوچیں یہ اجلاس استعفے دینے نہ دینے کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ شرکا کے تالیاں بجانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی پی پی کسی صورت اور اس کا کوئی لیڈر، عہدیدار کارکن استعفے دینے کی حمایت نہیں کرتا۔
آج ملک میں جہانگیر ترین کا معاملہ بھی سیاست میں ہلچل مچائے ہوئے ہے۔ جہانگیر کو مقدمات کا سامنا ہے اور وہ ضمانتوں کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ وہ دس سال سے عمران کے ساتھی تھے۔ ان کی عمران خان کے ساتھ جو قربت تھی اس کے لیے ساتھی لفظ صحیح مفہوم ادا نہیں کر سکتا۔ بلاشبہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت سازی میں جہانگیر ترین کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے کل بینکنگ کورٹ میں پیشی کے موقع پر کہا میں نے دس سال تحریک انصاف کے لیے خون پسینہ بہایا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ ان کے خلاف کیسز بنے تو وہ مایوس نظر آئے عدالت گئے تو ناراض بلکہ غصے میں بھی تھے انہوں کہا ہمیں دھکیلا نہ جائے۔ وفاداری کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ ایم این ایز تھے۔ ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونا تھا تو رات کوان کے عشایئے میں صوبائی وزیروں مشیروں8ایم این ایز اور 21ایم پی ایز سمیت 50کے قریب ارکان اسمبلی موجود تھے گویا طاقت کا اچھا خاصا مظاہرہ کیا گیا۔ جہاں عمران ترین کشیدگی عروج پر نظر آئی مگر تیسرے روز ضمانتوں میں توسیع کے لیے عدالتوں میں جہانگیر ترین اور علی ترین پیش ہوئے تو ان کی ٹون بدلی ہوئی تھی۔ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑنے کا اعلان کیا جس سے پی پی پی اور (ن) لیگ کی قیادت کو مایوسی ہوئی جو جہانگیر ترین کو استعمال کرکے حکومت گرانا چاہتے تھے۔جہانگیر ترین کہتے ہیں ان کے خلاف کیسز ایک سازش کے تحت بنائے گئے۔ عمران خان سے کچھ لوگ دور کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ حکومتی عہدیدار کہتے ہیں احتساب سب کا یکساں خواہ کتنا ہی طاقتور اور اہم شخص کیوں نہ ہو۔ اس معاملے میں آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے مگر اطلاعات، تجربے اور مشاہدے کے مطابق جہانگیر ترین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے پس پردہ معاملات اور حقائق کچھ اور ہیں۔قارئین !میرا جہانگیر ترین صاحب سے قریبی تعلق رہا ہے اور میں نے ایک خاص مشن میں ان کے ساتھ مل کر طالع آزمائی اور مشن پر کام کیا ہے۔اور میرے سینے میں بہت سے سیاسی راز پوشیدہ ہیں۔ جنہیں میں جلد ہی اپنی نئی کتاب میں قارئین کی نذرکروں گا۔ فی الحال میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟‘‘