ٹی ایل پی کے دوسرے روز بھی مظاہرے دھرنے ٹریفک جام
لاہور‘ گوجرانوالہ‘ شیخوپورہ (وقائع نگار‘ نمائندہ خصوصی‘ خصوصی نامہ نگار‘ سٹی رپورٹر‘ نامہ نگاران) لاہور سمیت مختلف شہروں میں ٹی ایل پی کے کارکنان کا احتجاج دوسرے روز بھی جاری رہا۔ احتجاج کے دوران گزشتہ روز رات گئے تک تصادم میں 2 پولیس اہلکار جاں بحق، جبکہ 97 سے زائد پولیس اہلکار زخمی جبکہ 4 مظاہرین جاں بحق‘ درجنوں زخمی ہوگئے۔ متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک پولیس اہلکار کو قتل جبکہ مختلف مقامات پر 97 سے زائد پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے‘ احتجاج کے دوران سڑکیں بلاک کر کے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے‘ کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرنے پر 460 افراد کے خلاف قتل‘ دہشت گردی‘ اقدام قتل اور ڈکیتی سمیت سنگین دفعات کے تحت چار مختلف تھانوں میں مقدمات کا اندراج کرلیا گیا ہے۔ ان مقدمات میں 80 رہنمائوں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شاہدرہ ٹائون میں سو سے زائد مظاہرین نے کانسٹیبل افضل کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ پولیس اہلکاروں نے مشکل سے کانسٹیبل کو مظاہرین کے چنگل سے بچا کر شاہدرہ ہسپتال منتقل کیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکا جس پر شاہدرہ ٹائون پولیس نے ٹی ایل پی شوریٰ کے ارکان حافظ سعد حسین رضوی‘ قاضی محمد محمود، پیر سید شبیر الحق شاہ ،مہر قاسم، محمد اعجاز رسول، پیر سید عنایت، مولانا غلام عباس، پیر سید توقیر الحسین شاہ، پیر سید سرور، مولانا غلام غوث، مولانا رضی حسین، مولانا ڈاکٹر محمد شفیق، مولانا محمد علی‘ مفتی عمر دراز اور مفتی وزیر احمد قادری سمیت سو سے زائد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق شوریٰ کے تمام ارکان نے مساجد میں اعلانات کے ذریعے اور سوشل میڈیا پر اپنے کارکنان کو احتجاج کی ترغیب دی۔ جبکہ شہر کے دیگر تھانوں جن میں فیکٹری ایریا میں دو مختلف مقدمات میں دس افراد کو نامزد کر کے 322افراد شمالی چھائونی میں 17کارکنان کو نامزد کر کے 80افراد اور باغبانپورہ میں 13افراد کو نامزد کر کے 79افراد کیخلاف دہشت گردی، اقدام قتل، کار سرکار میں مداخلت، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمات کا اندارج کرلیا ہے۔ جبکہ پولیس ذرائع کے مطابق لاہور پولیس نے گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران اڑھائی سو سے زائد احتجاجی مظاہرین کو گرفتار کر کے انہیں شہر کے مختلف تھانوں میں بند کردیا۔ دوسری جانب احتجاج کے دوران مظاہرین نے سکیم موڑ، یتیم خانہ چوک، بھٹہ چوک، داروغہ والا چوک، شاہکام چوک،جی پی او چوک، بیگم کوٹ، کوٹ عبدالمالک، امیر چوک کالج روڈ، موہلنوال، کرول گھاٹی، محمود بوٹی رنگ روڈ ، شاہدرہ چوک 25 نمبر سٹاپ ، خیابان چوک،ایل ڈی اے چوک سمیت لاہور کے 24مقامات پر دھرنا دیا اور احتجاج کیا۔ ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی ہدایت پر ایس ایس پی ایڈمن لاہور وقار شعیب قریشی نے سروسز ہسپتال اور میئو ہسپتال کا وزٹ کیا۔ زخمی زیر علاج اہلکاروں کی عیادت کی۔ ایس ایس پی ایڈمن نے بتایا کہ مظاہرین کے تشدد سے مجموعی طور پر 97 افسران و اہلکار زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں 02 ایس ڈی پی اوز، 05 انسپکٹرز‘ 06 سب انسپکٹرز، 06 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، 12 ہیڈ کانسٹیبلز اور 66 کانسٹیبلز شامل ہیں۔ شاہدرہ میں کانسٹیبل محمد افضل اور شالیمار میں کانسٹیبل علی عمران جاں بحق ہوئے۔ پاکستان سنی تحریک نے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان پاکستان سنی تحریک کے رہنماؤں سردار محمد طاہر ڈوگر‘ شیخ محمد نواز قادری‘ محمد عمر قریشی‘ قاری ریاض ہزاروی‘ قاری سیف اﷲ نقشبندی اور غلام قادر نقشبندی و دیگر نے کیا ہے۔ وزیر قانون پنجاب کی سربراہی میں ہونے والے اہم اجلاس میں لاہور کے 16اہم مقامات پر پولیس کیساتھ رینجرز تعینات کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ حالات زیادہ خراب ہونے پر فوج کی خدمات لی جا سکے گی۔ صوبائی سب کیبنٹ کمیٹی برائے داخلہ کا وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں اہم اجلاس ہوا۔ جس میں صوبے خصوصاً لاہور میں احتجاج کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس سے خطاب میں راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہسپتالوں کو جانے والے راستے کھلے رکھے جائیں۔ بہت برداشت کر لیا۔ راستے بند نہیں ہونے دیں گے۔ پنجاب بھر میں پولیس ملازمین اور افسران کی چھٹیاں منسوخ کرتے ہوئے دوبارہ اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ پنجاب میں پیرا ملٹری فورسز کو طلب کر لیا گیا۔ لاہور شہر کی مختلف سڑکوں پر پولیس‘ ایلیٹ فورس اور رینجرز کی گاڑیوں نے گشت کرنا شروع کر دیا۔ محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق احتجاج اور دھرنے ختم کروانے کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔ شیخوپورہ سے نمائندہ نوائے وقت کے مطابق فیض پور انٹرچینج پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی جبکہ پولیس کی فائرنگ سے 3 مظاہرین گولیاں لگنے سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق پولیس کی طرف سے مظاہرین پر شدید لاٹھی چارج بھی کیا گیا ہے اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی سارا دن وقفے وقفے سے جاری رہی۔ جبکہ پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں کی تصدیق عامر غفور، وقاص احمد اور قدیر کے نام سے کی گئی ہے جن کا تعلق شرقپور شریف، کوٹ عبدالمالک اور برج اٹاری سے بتایا گیا ہے۔ وزارت داخلہ نے پنجاب کے چار اضلاع شیخوپورہ‘ رحیم یار خان‘ گوجرانوالہ اور چکوال میں بھی رینجرز کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔ شرقپور شریف سے نامہ نگار کے مطابق شرقپور کوٹ نور شاہ کے قریب جاں بحق کارکن ملک عامر غفور کی نماز جنازہ تحصیل والی گرائونڈ میں ادا کردی گئی۔ منڈی فیض آباد سے نامہ نگار کے مطابق منڈی فیض آباد سے ملحقہ چاہ کنیاں والا کا ایک نوجوان حافظ محمد کاشف فیض پور انٹر چینج کے قریب دھرنا میں گولی لگنے سے دم توڑ گیا جس کی نماز جنازہ مقامی کوٹہ شاہ کے دربار میں ادا کی گئی۔ جبکہ دو افراد فیصل اکبر سکنہ چاہ کنیاں والہ اور طاہر سیفی سکنہ موکھے دا کوٹ دونوں شیلنگ اور فائرنگ سے زخمی ہو گئے۔ فاروق آباد سے نمائندہ خصوصی اور نامہ نگار کے مطابق تھانہ سٹی پولیس نے 10 سے زائد مظاہرین گرفتار کر لئے۔ مظاہرین کی طرف سے مزاحمت پر مقامی صحافی سمیت چار پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ کامونکے سے نامہ نگار کے مطابق جی ٹی روڈ سے دھرنا ختم کروا کر ٹریفک کھولنے کے لئے پولیس نے صبح سویرے آپریشن کر کے 16 گھنٹے بعد ٹریفک کھول دی۔ ترجمان کے مطابق کراچی میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ سی سی پی او لاہور غلام محمد ڈوگر کے مطابق لاہور کے علاقے شاہدرہ میں مظاہرین کے پتھراؤ سے پولیس کانسٹیبل افضل جاں بحق ہوئے۔ پتھراؤ سے 74 اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز بھی شامل ہیں۔ سی سی پی او کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کر کے گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ گوجرانوالہ سے نمائندہ خصوصی کے مطابق گوجرانوالہ میں دھرنا دوسرے روز بھی جاری رہا۔ امن و امان کی بحالی کے لئے رینجرز ڈی سی آفس پہنچ گئی۔ راولپنڈی‘ اسلام آباد میں بھی دوسرے دن بھی احتجاج اور چوک چوراہوں میں دھرنا جاری رہا۔ راولپنڈی میں مری روڈ بند رہی جبکہ کارکنان نے اپنے احتجاج کا مرکز لیاقت باغ چوک کو بنائے رکھا۔ مریڑ چوک سے مری روڈ مکمل بند ہونے کے باعث شہر میں کاروبار ٹھپ رہا۔ بھارہ کہو چوک میں احتجاج کی وجہ سے متبادل راستوں سے ٹریفک موڑی گئی ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد کی انتظامیہ، پولیس اور رینجرز کی ٹیمیں فیض آباد پر موجود رہیں۔ منگل کی علی الصبح پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ ہوئی اس دوران پولیس نے آنسو گیس چلادی اور لاٹھی چارج کیا۔ لیاقت باغ میں احتجاج کی وجہ سے شہر بھر میں ٹریفک بری طرح متاثر رہی۔حافظ آباد سے نمائندہ نوائے وقت کے مطابق حافظ آباد پولیس نے ضلع بھر میں کریک ڈائون کر کے 70 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا۔ مازکو چوک جلالپور اور سکھیکی میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔