اپوزیشن اتحاد اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے
چوہدری شاہد اجمل
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹوزرداری کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)کے شوکاز پھاڑنے کے بعدجہاں یہ اتحاداپنے ’’اختتام‘‘کی جانب بڑھ رہاہے، وہاںپیپلز پارٹی نے اس کے تمام عہدوں سے مستعفی ہو نے کے اعلان کر کے استعفے مولانا فضل الرحمان کو بھجواکر، جمہوریت کی بحالی کے ’’نام ‘‘پر بننے والے اپوزیشن اتحادپی ڈی ایم کی ’’مشکلات‘‘بڑھادی ہیں۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن کے ایک نئے اتحاد کی تشکیل کے لیے ’’صف بندی‘‘کر رہی ہے ۔جس کے بعد مولانا کی ’’سیاسی پیچ اپ‘‘کی کوششیں شائد کارگرہوتی نہیں لگتیں۔ مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا ایک اور موقع دیا ہے۔پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد مولانا کا کہناہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی نے اپوزیشن اتحاد سے خود کو علیحدہ کر لیا، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے، دونوں جماعتوں کا استعفی بھیجنا افسوسناک ہے۔ ہماری شکایت ہماری بجا ہے، وضاحت طلب کرنا ہمارا حق ہے۔ ہم پیپلز پارٹی اور اے این پی کو ایک موقع دے رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔اپوزیشن اتحاد کی اہم جماعت نون لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم سے علیحدگی کے اعلان سے متعلق کہنا تھا کہ جو جماعت اتحاد کا اعتماد کھو بیٹھے، میری نظر میں اس کیلئے کوئی گنجائش نہیں، فیصلہ پی ڈی ایم جماعتیں کریں گی۔ جو جماعت اتحاد میں نہیں رہنا چاہتی تو پھر ان کا اپنا راستہ ہے اور ہمارا اپنا راستہ ہے، ہمارا مقصد نظام کی تبدیلی ہے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا پی ڈی ایم کے شوکاز نوٹس پرکہنا ہے کہ سیاست’’ عزت اور برابری‘‘ کے ساتھ کی جاتی ہے۔بلاول کی طرف سے پی ڈی ایم کا نوٹس پھاڑنے کے بعد اس اتحاد کی’’ قسمت ‘‘ڈانواں ڈول ہوگئی ہے،بلاول بھٹو نے یہ کام ا پنی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی رہنمائوں کی رائے سامنے آنے کے بعد کیا، بلاول بھٹو نے شرکا کو شاہد خاقان عباسی کا شوکاز نوٹس پڑھ کر سنایا اور پھر اسے پھاڑ کر پھینک دیا۔جس پر ارکان کی طرف سے ’’تالیاں‘‘ بجائی گئیں۔اس سے پہلے پی ڈی ایم کو ایک دھچکا اس وقت لگا تھا جب عوامی نیشنل پارٹی نے اس اتحاد کو چند پارٹیوں کے ہائی جیک کر نے کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو جاری کردہ اظہار وجوہ کے نوٹس پر بھی سخت تنقید کی تھی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے عہدوں سے مستعفی ہونے کے پاکستان پیپلزپارٹی کے فیصلے پر جمعیت علمائے اسلام کے سینیئر رہنما مولاناعبدالغفورحیدری نے پیپلزپارٹی کے اس فیصلے کو’’ سیاسی خودکشی‘‘ قرار دیا اور کہا ہے حکومت کے خلاف تحریک وہی چلاسکتے ہیں جنھوں نے کشتیاں جلا رکھی ہوں، پیپلز پارٹی استعفے اس وقت دیتی جب انہوں نے باپ سے ووٹ لیے تھے،انہوں نے پیپلزپارٹی پر عمران خان کی حکومت کو’’ سہارا ‘‘دینے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی جوکررہی ہے، اس کا جواب عوام اگلے الیکشن میں دیں گے۔
بلاول بھٹو نے تو شوکاز نوٹس پرپی ڈی ایم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور اے این پی سے غیر مشروط معافی مانگے۔ان کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے’’ ایٹم بم ‘‘ہیں، یہ ’’آخری ہتھیار‘‘ ہونا چاہیے اور ہمارا آج بھی یہی موقف ہے، جس کو استعفیٰ دینا ہے دے دے، لیکن کسی پارٹی کو ڈکٹیٹ نہیں کریں۔ پاکستان کی تحریکوں میںشوکاز دینے کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ آخری موقعے پر لانگ مارچ اور استعفے کو نتھی کرنے کا اعلان کر کے اپوزیشن کو بہت نقصان پہنچایا گیا۔
ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں فتح کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے حوصلے ’’بلند‘‘ہو ئے ہیں وہاں ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز بھی ’’خوشی سے نہال‘‘ہیں جہاں انہوں نے ڈسکہ کے عوام کو مبارکباد پیش کی وہیں انہوں نے کارکنوں کو ووٹ پر ’’پہرہ‘‘دینے پر شاباش بھی پیش کی اور اس فتح کو ’’ووٹ چوروں ‘‘کا احتساب قرار دیا،مریم نواز نے پیپلز پارٹی کو بھجوائے گئے شو کاز کے معاملے سے مسلم لیگ(ن)کو الگ کر تے ہوئے ’’صاف صاف‘‘ تمام بوجھ مولانا کے ’’مضبوط‘‘کندھوں پر ڈال دیا ہے مریم نواز کا کہناہے کہ شو کاز نوٹس پی ڈی ایم ہی کا تھا، اب کیا کرنا ہے یہ مولانا فضل الرحمن فیصلہ کریں گے ۔
ایسے میں جب بظاہر اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر کوئی دبائو بھی موجود نہیں اور اپوزیشن اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو اب حکومت کے پاس عوام میں اپنی ساکھ کو بحال کر نے کا سنہری موقع ہے کہ وہ سب سے پہلے رمضان المبارک کے اندر ذخیرہ اندوزوںاور بلیک مارکیٹنگ کر نے والوں کو قابو کر تے ہوئے مہنگائی کے جن پر قابو پائے ،اگر حکومت مہنگائی کے مسئلے کوحل کر نے میں کا میاب ہو جاتی ہے تو عوام میں مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے ’’حملوں ‘‘کا دفاع بھی کر سکے گی کیونکہ اس وقت اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کو کم کرنا ایک ایسی’’ڈھال‘‘ ہے جو حکومت اورعوام کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔
ادھرمشترکہ مفادات کونسل میںکثرت رائے سے2017کی مردم شماری کے نتائج کی منظوری سے سندھ اور وفاق کے درمیان ’’تلخیاں‘‘بڑھنے کا خدشہ ہے کیونکہ سندھ کی جانب سے مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا گیا، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے مردم شماری کے نتائج پر اختلافی نوٹ پیش کیا۔یہ بات خوش آئند ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے متفقہ طور پر 2017 کی مردم شماری منظور کرتے ہوئے 2023 ء کے عام انتخابات سے پہلے فوری طور پر نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔جس سے تینوں چھوٹے صوبوں کی اسمبلی میں نمائندگی اوراس مردم شماری پر اٹھنے والے اعتراضات دور ہو سکیں گے۔
دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے تحریک لبیک کے کارکنوں کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اوردھرنوں کاشروع ہو نے والا سلسلہ حکومت کے لیے خطرے کی’’ گھنٹی‘‘ ہے حکومت کو چاہیئے کہ اس معاملے کو انتہائی دانشمندی اور پرامن طریقے سے حل کر ے ورنہ یہ معاملہ حکومت کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔ حکومتی وزراء کے بیانات سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت نے تحریک لبیک سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے اور انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی ۔