پی ڈی ایم شوکاز نوٹس پر سابق صدر زرداری کی معنی خیز خاموشی
امین یوسف
پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پاکستان ڈیمو کریٹک موو منٹ(پی ڈی ایم) سے اختلافات سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ وضاحت طلب کرنا ہمارا حق تھا، ہمیں توقع ہی نہیں تھی کہ وہ باپ کو 'باپ‘ بنائیں گے، اب بھی پیپلزپارٹی اور اے این پی کے لئے موقع ہے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔پی ڈی ایم جماعتوں کے درمیان بیان بازی اور الزامات کا کھیل گذشتہ کئی روز سے جاری ہے۔ اس سارے فسانے میں ایک شخص کی خاموشی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن اور سابق صدر آصف علی زرداری کا اس حوالے سے کوئی کردار سامنے نہیں آیا ہے۔ سیاسی پنڈت اس خاموشی کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں، پی ڈی ایم ابھی پوری طرح منتشر نہیں ہوئی، ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جماعتوں میں بہت کہنہ مشق اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو وقت اور حالات کے ساتھ اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پی ڈی ایم میں موجود اپنے عہدیداروں کے استعفے اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھجوائے ہیں جو پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے بھیجے۔ان میں شیری رحمان، راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ کے استعفے شامل ہیں۔
شوکاز نوٹس جاری ہونے کے معاملے پرمولانا فضل الرحمان نے انتہائی نرم لہجہ اختیار کر رکھا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم سے مطالبہ کیا کہ وہ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے غیر مشروط معافی مانگے۔ادھر اسلام آباد میں پی ڈی ایم اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگومیں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مولانا کا کہنا تھا کہ ہمیں بیان بازی میں نہیں الجھنا، یہ ہمارا آخری بیان ہے،ملک و قوم کے بجائے اپنے مفادات دیکھ کر فیصلے نہیں کریں گے۔ان کیلئے اب بھی موقع ہے فیصلوں پر نظرثانی کریں اور پی ڈی ایم سے رجوع کریں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کی سیاست اور جمہوریت عزیز ہے۔ عزت نفس کا مسئلہ بنانا سیاسی تقاضوں کے مطابق نہیں تھا، وہ پی ڈی ایم کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کرسکتے تھے کہ وہاں وضاحت کریں گے۔پی ڈی ایم تحریک کی رفتار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، پی ڈی ایم کی رفتار اور آگے بڑھنے میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے،اپنے دوستوں کو واپس لانے کیلئے ہم نے ان کا انتظار کیا، اب بھی کریں گے۔ مولانا کے بیان سے ایک بات تو واضح ہے کہ وہ پی ڈی ایم جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت مخالف تحریک کو منظم کیا جاسکے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اے آر ڈی سے لے کرآج تک کسی بھی اپوزیشن کی تحریک میں کوئی شوکاز نوٹس نہیں جاری ہوا۔چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ عزت اور برابری کے ساتھ سیاست کرنا جانتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ ہو تاکہ پارلیمان کے اندر اور باہر مل کر حکومت کی مخالفت کریں۔
11 اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) گذشتہ سال تشکیل پایا تھا اور اس نے بڑے شہروں میں بڑی ریلیاں نکالی ہیں۔اتحا د نے اسلام آباد پر مارچ کرنے کا فیصلہ بھی کیا جسے بعد ازاں ملتوی کردیا گیا۔پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران، مہنگائی اورحکومتی پالیسیوں میں نااہلی کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کے خلاف ایک نئی تحریک سامنے آئی تھی۔پیپلز پارٹی اور اے این پی کے پی ڈی ایم سے اختلافات اس وقت زور پکڑ گئے جب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔جس کے لئے پیپلز پارٹی نے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حمایت حاصل کی جو کہ پی ٹی آئی حکوت کی اتحادی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کا موقف تھا کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگی سینیٹر کو منتخب کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اس تمام صورتحال میں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی جو چند روز قبل تک پی ڈی ایم کا حصہ تھی ایک ٹکٹ میں کئی مزے لینا چاہتی ہے وہ مرکز میں اپوزیشن کی جماعت ہے لیکن بلوچستان حکومت میں شامل ہے اسی طرح کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے۔249 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل کی حمایت کی۔پاکستان میں حزب اختلاف کے اتحادوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ تاہم سابقہ اتحاد اور تحریکیں ان میں سے کوئی بھی موجودہ تحریک سے مماثلت نہیں رکھتی۔سوائے پاکستان قومی اتحاد کے جس نے ایک عوامی رہنما کے کو نشانہ بنایا۔اس تحریک کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انتخابی دھاندلی سے فائدہ اٹھانے آمرانہ اقدامات کے الزام سمیت اپنی جماعت کی معاشی پالیسیوں پر اپوزیشن کی جارحانہ مخالفت کا سامنا رہا ۔ ماضی کے برعکس آج ملک میں نچلے طبقے کو دینے کیلئے حکومت کے پاس کچھ نہیں،مہنگائی کے ہاتھوں لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کیلئے یہی بنیادی نکتہ ہے اگر پی ڈی ایم عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں واقعی سنجیدہ اور عوام کو مہنگائی سے چھٹکارا دلانا چاہتی ہے تو اسے اپنی صفوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ چھوٹے چھوٹے اور ذاتی مفادات سے نہ تو حکومت کو کچھ ہو گا اور نہ عوام کو کسی قسم کا ریلیف لے گا البتہ لوگ ان جماعتوں سے بھی مایوس ہو جائیں گے۔ لہٰذاپی ڈی ایم کے لئے تحریک کو برقرار رکھنا ایک چیلنج سے کم نہ ہوگا۔ اگرچہ اسلام آباد میں وبائی مرض کی وجہ سے اس نے اپنے مارچ کا پروگرام فی الحال ملتوی کردیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کی حالیہ گفتگو سے یہ بات واضح ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی تحریک کو زور وشور سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔