احتجاجی دھرنے کورونا وباء کو بڑھانے کا سبب بنیں گے
ندیم بسرا
وہی ہوا جس خدشے کا اظہار آج سے کئی ماہ قبل کیا جارہا تھا کہ پی ڈی ایم کی بیل منڈے نہیں چڑھے گی۔اپوزیشن اتحاد کو کسی کی نظر لگ گئی یا آپس کے دبے اختلافات سامنے عیاں ہوگئے بس عمران خان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ پی ڈی ایم مفادات کی سیاست پر مبنی ایک کھیل تھا جو ٹریلر سے آگے نہیں چل سکا۔یہ بات تو ایک حد تک درست ہے کہ ایسا ہونا باقی تھا تو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں حکومت کے امیداوار کی شکست کیا ثابت کرتی ہے کہ یہاں الیکشن مہم صیح طریقے سے نہیں چلائی جاسکی یا اس حلقے میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک زیادہ ہے۔تو سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک پہلو تو سب کے سامنے ہے کہ مہنگائی کے طوفان نے حکومت کے امیدوار کی کشتی کو ڈبو دیا۔چودھری محمد سرور،عثمان خان بزدار،سیف اللہ نیازی سمیت اعجاز چودھری کی محنت بھی کام نہیں آئی ووٹرز نے مہنگائی بے روزگاری کا غصہ مخالف جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے کر نکالا۔تو آئندہ بھی عام الیکشن میں اسی طرح کا سلوک پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھ ہوگا اگر حالات یہی رہے تو یہ واقعات اسی طرح دہرائے جائیں گے جس طرح ایک ہی حلقے میں ایک ہی جماعت اور ایک ہی امیداوار سے دو بارہ شکست کھانا ہے۔حکومتیں عوام کی امنگوں کی ترجمان ہوتی ہیں اگر عوام ان سے اکتا جائیں تو حکومتوں کے ختم ہونے میں کم ہی وقت لگتا ہے جس طرح سو دنوں کی تبدیلی پر پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تھی مگر اس کے مثبت اثرات تقریبا پونے تین برسوں کے بعد بھی نظر نہیں آرہے تو یہاں بھی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہے حکومت کی کارکردگی کو بھی کوئی نظر لگ گئی ہے۔اب جیسے جیسے پیپلزپارٹی کے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کے اختلافات سامنے آرہے ہیں تو اس کا فائدہ کس کو ملے گا تو یقینا اس کا زیادہ فائدہ حکومت کو ملے گا کہ بقول بلاول بھٹو زرداری کہ اپوزیشن نے پیپلزپارٹی کے ساتھ لڑائی کرنی ہے یا حکومت کے خلاف اس کا فیصلہ ن اور جے یو آئی ف کرلیں۔
حکومت اور اپوزیشن کی کشمکش اپنی جگہ قائم ہے مگر جیسے ہی کورونا کی تیسری لہر نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے رمضان المبارک کے آغا ز کے ساتھ ہی ایک جماعت کے ملک گیر دھرنوں نے بھی مسائل پیدا کردئے ہیں۔ ایک طرف تو کورونا کی وجہ سے زیادہ لوگوں کے اکھٹے ہونے پر پابندی ہے مگر مذہبی جماعت کے دھرنوں نے جہاں دوسرے مسائل پیدا کئے ہیں وہاں لوگوں کے اکھٹے ہونے کے بعد اس اندیشے کو ختم نہیں کیا جاسکتا کہ لوگوں کا ہجوم کورونا کی وباء اور مریضوں کو بڑھانے کا باعث ہو سکتاہے۔ جگہ جگہ دھرنوں کے دوران ہسپتالوں میں زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا کورونا کے مریضوں کے لئے اکسیجن سلنڈروں کی سپلائی ایک مسئلہ بنی رہی۔حتیٰ کہ اس دوران آکسیجن گیس لے جانے والا ٹینکر بھی ان ہی شاہراہوں سے ہو کر پہنچانا پڑا جہاں یہ لوگ دھرنے کی شکل میں بیٹھے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہروں میں کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل بھی متاثر رہی۔حکومت اور اس جماعت کو چاہیے کہ اس مسئلے کا پر امن حل نکالا جائے پرتشدد کاروائیوں سے گریز کیا جائے املاک کو نقصان پہنچانا کہاں کی عقل مندی ہے گاڑیاں جلانا یا انتظامیہ سمیت پولیس کو مارنے سے ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اس سے ہمارے ملک کی بدنامی ہوگی۔رسول پاک ؐکی حرمت پر ہماری جانیں بھی قربان ہیں ہمارا ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا لیکن ضروری یہ ہے کہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ہمارا پیغام عالمی سطح تک پہنچ بھی جائے ، ہمارا احتجاج بھی عالمی سطح پر ریکارڈ ہوجائے اور اس سے ملک پاکستان میں امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا نہ ہو۔