زکوٰۃ و خیرات کے کون حق دار ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں کچھ نوازا ہے اور جو سہولیات دی ہیں، وہ صرف ہمارے لیے نہیں ہیں کہ ہم اکیلے ان سے فائدہ اٹھائیں، اور ہمارے بہن بھائی، رشتہ دار، ملازمین، اہل محلہ، ضرورت مند اور مسافر بھوکے رہیں۔ آپ کو ان کے بارے میں معلوم تو ہے کہ وہ زندگی کے دن کیسے گزارتے ہیں۔ ہم اللہ کا حکم مان کر ان کی مدد نہیں کرتے اور امداد اِدھر اُدھر دے دیتے ہیں جس کے لیے ہمیں اللہ کو جواب دینا ہو گا۔ ہم اپنی ضرورت کے لیے جو بھی چیزیں خریدتے ہیں وہ کتنی دیکھ بھال کر خریدتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنے اردگرد موجود لوگوں کی بھی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ ضرورت مندوں کو مال داروں کی تلاش نہیں کرنی چاہیے بلکہ مال داروں کو چاہیے کہ وہ خود کوشش کر کے ضرورت مندوں کو تلاش کریں۔ غربت کا خاتمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ حق دار کو اس کا حق دیا جائے۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں ایسا خوبصورت نظام بنایا گیا کہ چند ہی برسوں میں لوگ اس قابل ہوگئے تھے کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ یہی وہ دور تھا جس کی برکتوں سے مسلمان پوری دنیا پہ چھا گئے۔ آج دیکھیں تو ہمارا حال برا ہے اور ہم رسوا ہو رہے ہیں۔ اگر ہم حق داروں کو ان کا حق دینا شروع کردیں تو کون بھوک کی وجہ سے خودکشی کرے گا؟ آپ کسی بھی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کتنے لوگ غربت کی وجہ سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں تو ایک طرف بجلی اور گیس وغیرہ کے بل ہی غریب آدمی کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ حکومت لوگوں کو پانی بھی مفت نہیں دیتی بلکہ اس کی بھی قیمت وصول کرتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے پورے ملک میں کروڑوں لوگوں بے روز گار ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگ تو کھانے پینے کی چیزوں کے لیے بھی ترس رہے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو تعلیم کہاں سے دیں؟ جو بندہ مہینے کے دس پندرہ ہزار کماتا ہے وہ کہاں جائے؟ذرا اپنے قریب نظر دوڑا کر دیکھیں، آپ واقعی بے چین ہو جائیں گے۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے، زکوٰۃ کا نہیں۔ زکوٰۃ آپ نے سال پورا ہونے پر دینی ہوتی ہے جو آپ پورا سال بھی دے سکتے ہیں۔ یہ مبارک مہینہ تو غریبوں پر دل کھول کر خرچ کرنے کے لیے ہے۔ قرآن و حدیث میں انفاق فی سبیل اللہ پر بہت زور دیا گیا ہے اور ہمیں اس پر عمل کرتے ہوئے حق داروں کو اپنے مال و متاع میں سے حصہ دینا چاہیے۔
٭…٭…٭