• news
  • image

دوست، سیاست اور جہانگیر ترین

حکایات سعدی کے چرچے تو پوری دنیا میں ہیں ایک دن کسی نے شیخ سعدی سے پوچھا، دوست اور بھائی میں کیا فرق ہے تو انہوں نے لب کشائی کی، بھائی سونا ہوتا ہے اور دوست ہیرا۔پوچھنے والے کو سمجھ نہ آئی تو وضاحت پوچھی، سعدی شیرازی نے جواب دیا کہ سونا اگر ٹوٹ جائے تو اسے جوڑا جاسکتا ہے مگر ہیرے کو دوبارہ بنانا مشکل ہے. سیاست جاننے والے کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا جبکہ سیاسیات کے استاد میکاولی کا یہ کہنا ہے کہ سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پاکستانی تجربہ کار سیاستدانوں کے دو فرمودات تو بہت مشہور ہیں ایک سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں، دوسرے فرمان کے طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔ قارئین کرام ! ہماری سیاسی تاریخ ایسے کئی کرداروں سے بھری پڑی ہے جو کبھی قریبی دوست تھے، ہوائوں کے رخ پر آنکھیں بدل گئے۔
 آج کل ہر محفل میں جہانگیر ترین موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں، ایک پولیس افسر کے صاحبزادے، ایک سیاسی خاندان کے داماد اور قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق استاد ایسے کھیل میں آ گئے جہاں ان سے بھی بڑے استاد بیٹھے ہیں۔ جہانگیر ترین نے ابتدا میاں شہباز شریف کی مشاورت سے کی اور نئی صدی میں نئے سیاسی لباس کے ساتھ داخل ہوئے اور مشرف حکومت کا حصہ بن گئے۔ 2011 کے جلسے کے بعد پی ٹی آئی کا سٹیڈیم بھرنے لگا، اب سیاست کے کھیل میں جہانگیر ترین نمایاں کھلاڑی کے طور پر شامل ہوئے وہ کپتان کے سب سے قابل اعتماد ساتھی بن گئے انہوں نے پارٹی کیلئے دولت کے دروازے کھول دیئے۔ خان صاحب جہانگیر ترین کے طیارے پر گھومتے تھے۔2018 کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کو حکومت ملی تو جہانگیر ترین ناہل ہونے کے باوجود عمران خان کے قریب تھے۔پارٹی کے ارکان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ جہانگیر ترین کی قربت حاصل کی جائے ۔مگر حاکم کے ساتھی ترین فیکٹر کا سدباب کرنے میں کامیاب ہو گئے اور چینی کمیشن کے بعد ترین صاحب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اب میرے خان صاحب کے ساتھ وہ تعلقات نہیں ہیں جو پہلے تھے۔جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر تین ارب کے شیئرز غیر ملکی کمپنی میں منتقل کیے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق جے کے ٹی اور ان کے فرزند پر 2013/14 کے دوران جے کے فارمنگ سسٹم لمیٹڈ کمپنی کے دھوکہ دہی اور فراڈ سے چار ارب اور پینتیس کروڑ کی منی لانڈرنگ پر پی پی سی کے 406،420،109 سیکشنز کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی اے کے ایک اور نوٹس میں جہانگیر ترین کو فارمز کی تمام مشینری کی رسیدیں، پینتیس ہزار ایکڑ کے رقبے کے ثبوت،بینک کی رپورٹ، مشینری اور پینتیس ہزار ایکڑ رقبے کی تخمینہ رپورٹ، برطانیہ میں خریدی گئی جائیدادوں کی منی ٹریل جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے، جہانگیر ترین خان نے اپنے اوپر تمام مقدمات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا اور اپنے خلاف کارروائی کو ایک سازش اور مہم کا نام دیا۔جہانگیر ترین ایک عاجز انسان ہیں، دولت اور شہرت ہو تو انسان میں غرور اور تکبر آ ہی جاتا ہے مگر ان میں ایسی خصلت نہیں ہے وہ دوستوں کے دوست ہیں اور سیاست میں انہوں نے صرف دوست ہی بنائے ہیں۔وہ اپنی تحریک انصاف سے انصاف کے متمنی ہیں، چینی کمیشن کیس میں جہانگیر ترین خان نے 22 اپریل تک ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔ ایف آئی اے اور جے کے ٹی کر درمیان تفتیش کا کھیل جاری ہے، اگر جہانگیر ترین کو ایف آئی کی جانب سے انصاف نہ ملا تو وہ عدلیہ سے رجوع کریں گے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنی پیشی پر پارٹی ارکان کے ساتھ جو پاور شو کیا اس کے پیچھے وہی محرکات ہیں جو سسٹم چلا رہے ہیں میرے خیال میں یہ محض منہ کی باتیں ہیں۔دوسری طرف عمران خان کے وزیر مشیر، ان کو اس بات پر قائل کر چکے ہیں کہ ترین آپ کو بلیک میل کررہے ہیں جس پر دیرینہ دوست نا خوش ہیں۔ اور جب بادشاہ نا خوش ہوتا ہے تو دوستی بھول جاتا ہے۔ بہرحال آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جہانگیر ترین اپنے گھر کی بیسمنٹ میں خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور اپنا اگلا سیاسی لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔ ہواؤں کا رخ کبھی بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ کل کے مخالف، دوست اور آج کے دوست مخالف بم سکتے ہیں. ستر سالوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے اور یہی ہماری سیاست ہے دوستو! کالم کے شروع میں عرض کی تھی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔سیاست صرف مفادات کا نام ہے جس کو جہاں سے مفاد ملتا ہے وہ اسی کے گن گاتا ہے۔عمران خان نے ترین کے ساتھ وہی کیا جو ماجد خان کے ساتھ کیا تھا ایسے میں جہانگیر ترین خان کا یہ کہنا کہ میں تو دوست تھا ہماری چومکھی سیاست میں دیوانے کے خواب جیسی ہے۔

لقمان شیخ

لقمان شیخ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن