ہاتھ آنکھوں پر رکھ لینے سے خطرہ نہیں ٹلتا!
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے اندر ایک نہیں بلکہ دو پاکستان بن چکے ہیں۔ ایک غریبوں کا اور دوسرا امیروں کا ہے اوربوجہ عدم مساوات معیشت اس مقام پر آچکی ہے کہ کسی بھی قسم کا خون آشام تصادم ہو سکتا ہے ۔کیونکہ عدم مساوات صرف آمدنی اور دولت تک ہی محدود نہیں رہابلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں غریب کی دنیا الگ اور امیر کی دنیا الگ بن چکی ہے۔واضح رہے کہ عالمی ترقیاتی ادارے نے چند روز پیشتر اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کا امیر ترین طبقہ ملکی آمدنی کے 50 فیصد پر کنٹرول رکھتا ہے جبکہ غریب ترین طبقے کے حصے میں ملکی آمدنی کا صرف سات فیصد آتا ہے۔ بایں وجہ امیر اور غریب میں بہت زیادہ طبقاتی فرق بڑھتا جا رہا ہے زیادہ پریشان کن یہ ہے کہ مندرجہ بالا رپورٹ میں عدم مساوات بنانے اوراسے تقویت دینے کے اہم محرکات اشرافیہ کی اجارہ داری ، طاقت کا بے دریغ استعمال اور حکومتی پالیسیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ پر ارباب اختیار کا ردعمل دیکھ کر کر ہمیں تو سیف الدین سیف یاد آگئے :’’ہم کوئے ملامت سے نکل آئے ہیں یارو ۔ اب نہ چاک رہا ہے نہ گریباں رہا ہے‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران جماعت نے جو نعرہ سب سے زیادہ لگایا وہ دو نہیں ایک پاکستان کا تھا درحقیقت یہی نعرہ بس نیا تھا باقی سیاسی چہرے ،نعرے ،دعوے اور وعدے وہی گھسے پٹے تھے یہی وجہ ہے کہ عوام جھانسے میں آگئے کہ اب کہ شاید سیاست کو خدمت سمجھا جائیگا اور غریب و امیر کا فرق مٹ جائیگا، انصاف کی بلاتفریق فراہمی ہوگی، غریب بھوکا نہیں سوئے گا ، غریب اور امیر کے بچے ایک جیسے سکولوں میں پڑھیں گے ،روزگار اور نوکریوں کی اتنی فراوانی ہوگی کہ دیگر ممالک سے لوگ انکے حصول کیلئے پاکستان آئینگے، منہ زور مہنگائی کا منہ توڑ دیا جائے گا اور ارزاں نرخوں پر ہر چیز دستیاب ہوگی ، بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں میں مناسب ریٹ مقرر کئے جائینگے، نیکی کا بول بالا ہوگا۔ المختصر عوام سمجھے کہ راوی چین ہی چین لکھے گا اورواقعی ریاست مدینہ قائم ہو جائیگی مگراسکے برعکس پہلے ہی برس مہنگائی اور جائز و ناجائز ٹیکسز نے عام آدمی کی کمر توڑ دی اور دوسرے برس کرونا وبا کے پھیلائو نے رہی سہی کسر پوری کر دی حالانکہ مذکورہ حالات خطرے کی گھنٹی تھے اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے بھی خبردار کیاجا رہا تھا کہ کرونانے پوری دنیا کی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسکی شدت میں مزید اضافہ ہورہا ہے خاص طور پر جہاں طبی نظام کمزور ہے اگر بروقت اور مناسب حکمت عملیاں طے نہ کی گئیں تو تین تہائی آبادی معاشی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتی ہے اور یہ صورتحال ان ممالک کیلئے زیادہ پریشان کن ہوسکتی ہے جن کی ترجیحات میں صحت و تعلیم شامل نہیں اور ایسا ہی ہوا ہے ہمارے حکمرانوں نے موجودہ خطرات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا ۔پہلے بھی حفاظتی تدابیر میں دیر کر دی گئی اور اب جبکہ ویکسین کے حصول کیلئے تمام ممالک کوشاں تھے تو ہم فری ویکسین کا انتظار کرتے رہے اور پورا ملک تیسری لہر کی لپیٹ میںآگیا اور اب اموات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جسکا حکومت کے پاس واحد حل لاک ڈائون ہے کیونکہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں ویسے ہی اتنا اضافہ ہوچکا ہے کہ عام آدمی خرید نہیں سکتا اور بے حسی دیکھیے کہ پھیپھڑے متاثر ہونے پر لگایا جانے والا انجکشن Remdesivir جس کی افادیت نناوے فیصد مسلمہ تھی اسکی خریداری بند کر دی گئی ہے کیونکہ وہ مہنگا ہوگیا ہے اور آکسیجن سلنڈروں کی صورتحال بھی تشویشناک ہے تبھی تو اہل دل کہہ رہے ہیں اگر یہ انجکشن مہنگا ہوگیا تھا تو کچھ عرصے کیلئے شاہانہ پروٹوکول اور اللوں تللوں کو بند کر دیا جاتا مگر خریداری پر پابندی نہ لگائی جاتی تو کتنی جانیں بچ جاتیں لیکن غریب کیلئے کون سوچتا ؟حقائق تلخ ہیں کہ ہیومین ڈویویلپمنٹ انڈیکس کی نئی درجہ بندی میں پاکستان ایک سال کے دوران مزید دو پوائنٹس نیچے آچکا ہے کبھی ہمیں گرے لسٹ میں اور کبھی ریڈ لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھ نہیں سکتے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی عالمی کانفرنس میں پاکستانی وزیراعظم کو شریک کیوں نہیں کیا گیا ؟ امریکی موسمیاتی تبدیلی کے ایلچی کے دورہ ایشیا میں پاکستان کا نام شامل کیوں نہیں ہے ؟ برطانوی حکومت کے بڑھتے کرونا کیسسز کی بنیاد پر پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کیوں کیا جارہا ہے ؟لیکن ہم نے اپنے عوامی اور ملکی حلقوں کو ادھر ادھر کی سنا کر مطمئن کردیا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں سے کرونا ریلیف کا پھر مطالبہ کر دیا ہے چہ چائیکہ ہم امتیازی رویوں پرآواز بلند کرتے۔ اس پر ہم اتنا ہی کہیں گے کہ :ہاتھ آنکھوں پر رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا ۔دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی ۔شعلوں کو ہوائوں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا ۔