’’بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر۔۔۔‘‘
بندر روڈ سے کیماڑی/میری چلی رے گھوڑا گاڑی/ بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر۔۔۔ گلوکار احمد رشدی کے اس گانے کے بول کسی کوبھولے نہیں ہونگے۔ مدعا احمد رشدی کا گیت نہیں بلکہ فٹ پاتھ ہے۔بڑی سڑکوں کے حاشیوں پر فٹ پاتھ کا وجود ان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔فٹ پاتھ کی دنیا حرکت و سکون دونوںکے مناظر پیش کرتی ہے۔ فٹ پاتھ کی آغوش میں بہت سی ہستیاں ہوتی ہیں۔ کارپوریشن کے ٹین اپنی الا بلا، کوڑے کرکٹ، ایسے دکانداروں کے پلنگ جو صرف نفع کمانا، قانون کودھوکا دینا اور ساری دنیا کو اپنا سمجھنا جانتے ہیں۔ صرف پلنگ ہی نہیں، بنچ، کرسیاں، ٹوکرے، دیودار کے بکس وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ سب فٹ پاتھ کی رونق ہوتی ہیں۔ فٹ پاتھ پر اشرف المخلوقات بھی ہوتے ہیں۔ مسلسل سدا لگائے ہوئے فقیر، اپاہج بھک منگے، کوڑھی جو اپنے ٹھنٹہ ہاتھوں کو دکھاکر صرف سوالیہ اشارے کرتے ہیں۔ ایسے زار ونزار محتاج جو برائے نام سا چیتھڑا سامنے بچھاکر بے حس و حرکت لیٹے رہتے ہیں۔ نصف درجن سے زیادہ گندے اور ادھ موئے بچوں والی عورت جو بیر یا شکر قند، رکشا والوں اور قلیوں کے ہاتھ بیچتی ہیں۔ میلے برقعے کے اندر سے نکیاتی ہوئی سائلہ عورت۔ چائے کی پھینکی ہوئی سیٹھی سے بننے والی چائے بیچنے والے اور انکے گرد بیکار اور تھکے ہوئے مزدور۔ راتوں کو انہی فٹ پاتھوں کے سینوں کی دبی ہوئی آگ دہک اٹھتی ہے۔ بھوکے پیٹوں کو جگا کر فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والے سونے کی نقل کرنے کے لیے زمین پر دراز ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کا چکر چلتارہتاہے اور قسمت کے بہانے برداشت کر لیا جاتا ہے۔نہ جانے کتنی بِن کہی اور ان سنی کہانیاں فٹ پاتھوں سے گرد ِراہ کی طرح لپٹی ہوئی ہوں گی۔یہ تو طے ہے کہ ملک میں اکثریت پیدل چلنے والوں کی ہے۔ اسی لئے ڈراموں میں محاورے سننے میں آتے ہیں کہ ’وہ فٹ پاتھ پر آگیا‘۔ ناداروں، غریبوں، بے گھروں کا ٹھکانہ فٹ پاتھ ہی ہیں۔مہذب شہر اپنے فٹ پاتھ کے ڈیزائن اور وسعت سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ ڈبل کیبن گاڑیوں، کروڑوں کی کاروں، ٹیکسی رکشوں سے سفر کرنے والے اقلیت میں ہیں۔ اکثریت پیادوں کی ہے۔ماضی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی 84فیصد سڑکوں پر راہگیروں کیلئے بنیادی سہولتیں نہیں ہیں۔فٹ پاتھ پر دکانیں آگے بڑھی ہوئی ہیں۔ بڑھتی ہوئی تجاوزات اور انتظامیہ کی مسلسل خاموشی نے شہریوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے فٹ پاتھ اور سڑکوں پر ہونے والے قبضے کے نتیجے میں دن بھر ٹریفک کا نظام درہم برہم رہتا ہے۔ فٹ پاتھ پر قبضہ ہو چکا ہے۔دنیا میں فٹ پاتھوں پر لوگ کہاں نہیں سوتے ممبئی تو یوں ہی بدنام ہے۔ بعض شہروں میں سڑکوں، فٹ پاتھوں، پارکوں میں سونے والوں کی تعداد میں 47فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ بعض شہروں میں بے گھروں کی تعداد 11.5 ہزار کے لگ بھگ ہے جہاں تک لاس اینجلس کا تعلق ہے وہاں بھی بے گھرافراد کی تعداد،میںبعض کائونٹیز میں 23فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یونانیوں کے شہر کورینتھ (Corinth) میں چوتھی صدی عیسوی میں فٹ پاتھ بنائے گئے تھے۔ رومن بھی فٹ پاتھ بڑے اہتمام سے بنایا کرتے تھے۔ 1671 میں عام شاہراہوں کی صفائی اور فٹ پاتھ کیلئے قوانین بنائے گئے تھے۔ 1766 میں لندن شہرمیں روشنی، صفائی اور پیدل چلنے والوں کے فٹ پاتھ کے اہتمام کیلئے قانون سازی ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز میں یورپی ممالک کے تقریباً تمام دارالحکومتوں میں کھلے فٹ پاتھوں کا اہتمام تھا۔ حادثات کی روک تھام میں بھی فٹ پاتھ کا واضح کردار ہے۔ فٹ پاتھ جہاں سڑک کے ساتھ پیدل چلنے والوں کی آسانی اور حفاظت کیلئے ضروری ہیں وہیں سڑک پر ٹریفک کو رواں رکھنے اور حادثات سے بچنے کیلئے بھی اہم ہیں۔ دیہات میں کھلی جگہوں، آبادی اور ٹریفک کی کمی وجہ سے فٹ پاتھ شاید ضروری نہ ہوں لیکن شہروں میں تو سڑک کے دونوں طرف ناگزیر ہیں۔ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ بڑے شہروں میں بھی اکثر مقامات پر سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ بنانے کاکوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ اس وقت افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہائی سٹریٹ میں بھی فٹ پاتھ نہیں ہوتا۔ ہائی سٹریٹ شہر یا قصبے میں اس مقام کو کہتے ہیں جہاں تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کو یا تو میسر نہیں، یا اگر ہیں تو وہ اتنے خطرناک ہیں کہ اس سے بہتر سڑک پر چلنا ہوتا ہے جہاں کہیں خوش قسمتی سے فٹ پاتھ موجود ہے وہ پیدل چلنے والوں کیلئے کم اور موٹر سائیکل سواروں کیلئے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔فٹ پاتھ نہ انکی ضرورت ہے نہ مسئلہ۔شہروں اور قصبوں میں سڑکوں کی تعمیرکے ساتھ فٹ پاتھ کی تعمیر کو لازمی کردیا جائے۔ اس کیلئے سڑک اور فٹ پاتھ کے درمیان درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ صرف حکومتوں اور اداروں ہی کا نہیں، تمام سیاسی و سماجی راہنمائوں اور غیر سرکاری تنظیموں کا بھی فرض ہے۔ لہذا فٹ پاتھ بہت ضروری ہے،اعلی حکام پیدل چلنے والوںکو خدارا اس حق سے تو محروم نہ کریں۔