• news

شہریت کا نیا قانون آبادی کا تناسب تبدیل کرسکتا ہے: اقوام متحدہ ماہرین

اسلام آباد(این این آئی)انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اورنئے قوانین کے نفاذ کے بھارتی فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی سیاسی شمولیت میں کمی آ سکتی ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق  تشویش کا اظہاراقوام متحدہ کے پانچ خصوصی نمائندوں کی طرف سے10 فروری کو بھارتی حکومت کے نام ایک خط میں کیاگیا جس سے ہفتے کے روز شائع کیا گیا۔یہ خصوصی نمائندے اقلیتوں کے مسائل، اظہار رائے کی آزادی کے حق کے تحفظ اور فروغ، پرامن اجتماع اور ایسوسی ایشن کی آزادی کے حق،نسل پرستی، نسلی امتیازی اور اس سے متعلق تشددکی موجودہ صورتحال اورر مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق سے متعلق ہیں۔ خصوصی نمائندوں نے اپنے خط میں کہاکہ کشمیری، ڈوگری، گوجری، پہاڑی، سکھ، لداخی اور دیگر اقلیتوں جیسے مقامی گروپوںکوعلاقائی حکومت اور اس کے قانون سازی کے اختیارکے خاتمے کی وجہ سے سیاسی نمائندگی اور شرکت کی کمی کا سامنا ہے ۔5 اگست 2019 سے پہلے مقبوضہ جموں و کشمیرکا اپنا آئین اور قانون سازی کے لئے ایک اسمبلی تھی۔ ایک اور آئینی شق 35A کو بھی ختم کیاگیا جس کے تحت غیر ریاستی باشندے نہ تو علاقے میں جائیداد خرید سکتے تھے اور نہ سرکاری نوکریوں کے لئے درخواست دے سکتے تھے۔بھارت نے نہ صرف ان شقوں کو ختم کیابلکہ ریاست کو لداخ اور جموں و کشمیر کے دو الگ الگ علاقوں میں تقسیم کیا ۔خصوصی نمائندوںنے کہا کہ شہریت کا نیا قانون علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کا سبب بن سکتا ہے اور جموںوکشمیر کے عوام کے لسانی اور ثقافتی حقوق اور مذہب یا عقائد کی آزادی کے حقوق کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جن کی 1947ء میں قائم کئے گئے خود مختار علاقے کے لوگوں کو ضمانت دی گئی تھی ۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ نئے ڈومیسائل قوانین سے مقامی باشندوں کے مقابلے میں ایک غیر کشمیری شخص کے لئے رہائشی سرٹیفکیٹ کا حصول آسان بنا دیا گیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن