ایک اور مہنگا رمضان!!!!!
نیکیوں کا موسم بہار تو رمضان ہے، رحمتوں کی بارش کا مہینہ تو رمضان ہے، یہ مہینہ ہمیں رک جانے کا درس دیتا ہے، تحمل مزاجی، برداشت اور تقسیم کا سبق دیتا ہے۔ اس مہینے لوگ بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں، صدقات و خیرات بڑی تعداد میں نظر آتی ہے، سحری و افطاری میں ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی ہر استطاعت رکھنے والے دل کھول کر خرچ بھی کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور یہ رخ نہایت بھیانک، تکلیف دہ اور پریشان کن ہے کہ ضرورت مندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سوال کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی ہے۔ شاید جو خیرات کرتے ہیں وہ سوال کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے رمضان المبارک کی آمد پر کمزور طبقے کے لیے مختلف پیکجز کا اعلان کیا جاتا ہے، کئی مردہ منصوبوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ تیسرا رمضان ہے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت عوام کو ماہ مبارک کے دوران حقیقی سہولت دینے میں ناکام رہی ہے۔ ہر مرتبہ رمضان المبارک کے موقع پر حکومت بلند و بانگ دعوے کرتی ہے، عوام کو جھوٹے دلاسے دیے جاتے ہیں، سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، مافیا کو نکیل ڈالنے کے اعلانات کیے جاتے ہیں، انتظامیہ کو متحرک کرنے، ذمہ داروں کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر آج تک کچھ نہیں ہو سکا۔ اس مرتبہ بھی عوام ایک مہنگا رمضان گذارنے پر مجبور ہیں۔ کہیں اشیا خوردونوش کی قلت ہے تو کہیں اشیا خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں، سہولت بازار اور رمضان بازاروں کی حالت قابل رحم ہے۔ کہیں کوئی حکومت نظر نہیں آتی، کیں کوئی انتظامیہ نظر نہیں آتی، کہیں حکومت کی رٹ نظر نہیں آتی، اشیا خوردونوش کی قیمتوں کے تعین کا کوئی پیمانہ نہیں ہے، کوئی چیک کرنے والا، کوئی احتساب کرنے والا نہیں ہے، نہ پنجاب میں کوئی پوچھنے والا ہے نہ وفاق کی سطح پر کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے، پنجاب کے متعلقہ وزیر اور وفاق کی سطح پر وزارتِ صنعت و پیداوار بھی عوامی توقعات پر پورا اترنے اور ضروریات پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ حکومت نے مرغی کے گوشت کی قیمت تین سو چونسٹھ روپے فی کلو جاری کی ہے۔ شہر بھر میں شاید ہی اس قیمت پر کہیں گوشت دستیاب ہو۔ خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جنہیں اس قیمت پر گوشت ملا ہو۔ یہی گوشت شہر میں پانچ سو روپے فی کلو بھی فروخت ہوتا رہا ہو گا۔ کیا حکومت جواب دے سکتی ہے کہ کیا یہ عام آدمی کو رمضان کا تحفہ ہے۔ مارکیٹ کمیٹی کی جاری کردہ ریٹ لسٹ پر شہر میں کہیں بھی نہ تو کوئی پھل مل رہا ہے اور نہ ہی کوئی سبزی مل رہی ہے۔
رمضان المبارک میں ایک تو مصنوعی مہنگائی کا طوفان ہے جب کہ دوسری طرف حکومت کی ناقص حکمت عملی کا بوجھ بھی عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے حوالے سے حکومت اپنے تیسرے سال میں بھی کوئی بہتر حکمت عملی ترتیب دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس شعبے کی درآمدات میں خطرناک حد تک اضافہ بھی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ صورتحال اس لیے بھی خطرناک ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم کھانے کی بنیادی اشیا بھی باہر سے منگوا رہے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ہماری آنکھیں کھولنے کے کیے کافی ہیں ساتھ ہی حکمرانوں کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان نے جولائی سے مارچ کے دوران بیرون ملک سے نو سو اٹھاسی ارب چھبیس کروڑ روپے کھانے پینے کی اشیا منگوائی ہیں۔ گذشتہ برس اس عرصے میں چھ سو اٹھارہ ارب اکسٹھ کروڑ کی اشیا خوردونوش درآمد کی گئی تھیں۔ اس سال درآمدات کی شرح میں اضافہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ مہنگائی بھی بڑھی ہے۔ ہم بنیادی اشیا باہر سے منگوا رہے ہیں اندرونی طور پر معاملات کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہماری درآمدات بڑھی ہیں شاید مہنگائی کی ایک وجہ یہ بھی مہنگائی سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ہماری پیداوار کم ہو رہی ہے یا پھر ہم اپنی پیداوار کو استعمال کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ وزارت صنعت و پیداوار کیا کر رہی ہے، یہ سارے فیصلے کون کر رہا ہے۔ وفاق کی سطح پر جتنی بھی وزارتیں یا افراد ان کاموں سے منسلک ہیں وہ کیا کرتے رہے ہیں۔ گندم اور چینی کی درآمدات بھی بڑھی ہیں۔ رواں مالی سال میں ہم ایک سو ستاون ارب سے زائد کی گندم درآمد کر چکے ہیں گذشتہ برس اس عرصے میں گندم کی درآمد پر ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا۔ ہم خوردنی تیل باہر سے منگوا رہے ہیں، مصالحہ جات بھی باہر سے منگوا رہے ہیں، دالیں بھی باہر سے منگوا رہے ہیں۔ یہ سارے مسائل حکومت کے سامنے ہیں اور معاملات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ آخر اس طرف توجہ کون دے گا۔ لگ بھگ پونے تین سال گذر چکے ہیں حکومت ابھی تک بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزارتِ صنعت و پیداوار کیا کرتی ہے۔ بجٹ آنے والا ہے۔ عوام پر مہنگائی کا بم گرایا جائے گا۔
رمضان بازار، سہولت بازار اور صوبائی سطح پر مہنگائی کو قابو کرنے والی وزارتیں اور تمام حکومتی شخصیات بھی اشیا خوردونوش کی طرح عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ عوام صرف سہولت بازاروں کو ہی نہیں اپنے منتخب نمائندوں کو بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔ نہ رمضان بازار ہیں نہ ان بازاروں کا انتظام کرنے والے ہیں اور جو ووٹ دیتے ہیں وہ ہر جگہ پریشان ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ کاش کہ ہم رمضان المبارک کے نام پر سیاست نہ کریں اور صرف ماہ مبارک ہی نہیں سارا سال عوام کی بھلائی کے لیے سوچیں اور عملی اقدامات کریں۔ یہ حکومت کسی پر احسان نہیں کرتی بلکہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔