حکومت نے وقت کے انتخاب اور فیصلہ سازی میں روایتی سستی کا مظاہرہ کیا
لاہور (تجزیہ: محمد اکرم چودھری) وزیراعظم عمران خان کی تقریر حقیقت کے قریب اور مسئلے کے حل سے متعلق تھی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اہم معاملات میں وقت کا انتخاب کرتے ہوئے بھی غلطی کی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کا خون بہا۔ جلاؤ گھیراؤ ہوا، فضاؤں میں دھواں پھیلا اور ملک میں خوف نے ڈیرے ڈالے۔ یہ نقصان حکومت کی غلط حکمت عملی سے ہوا ہے۔ جب حکومت کالعدم تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کر چکی تھی اور معاہدے کے بعد یہ احساس ہوا کہ معاہدہ غلط تھا تو پھر اس معاہدے کی حتمی تاریخ آنے سے بہت پہلے اس معاملے پر سنجیدہ مذاکرات اور بات چیت کا آغاز کسی بڑے سانحے سے بچا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اور پھر ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب رقم ہوا۔ جب لبیک یا رسول اللہ کا نعرہ لگانے والوں کا مقابلہ نعرہ تکبیر لگانے والے اپنے ہی محافظوں سے ہوا۔ دعا ہے کہ یہ تکلیف دہ مناظر ہمیں دوبارہ دیکھنے کو نہ ملیں۔ وزیراعظم عمران خان نے دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہوئے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہر ممکنہ قدم اٹھانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ وہ وزیراعظم کی حیثیت سے مختلف ممالک کے سربراہان کو خطوط لکھ کر اور بین الاقوامی فورمز پر بات چیت کے ذریعے اس عظیم مقصد کے ساتھ اپنی وابستگی تو پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں اس تقریر کے ذریعے موجودہ حالات میں ان کی طرف سے عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ سیاسی حکومتوں کے پاس دلائل موجود ہوتے ہیں لیکن وقت گذرنے کے بعد ایسے دلائل یا وضاحتوں کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ خالصتاً مذہبی معاملے میں سیاسی جماعتوں کو گھسیٹنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سب جانتے ہیں سیاسی جماعتوں میں سب کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے ساتھ ہی کھڑی ہوتی ہیں۔ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے سے ہٹ کر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم ناموس رسالت کے معاملے کو کیسے بہتر انداز میں دنیا کے سامنے اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں دنیا سے تعلقات کو قائم رکھتے ہوئے اپنے مذہبی موقف کو آگے بڑھانا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو دیگر مذاہب کا علمی مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرے۔ حکومت ایسی پالیسی کا اعلان کرے جس کے ذریعے مدارس کے کم از کم ہر سال ایک سو طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ، انگلینڈ، اور دیگر یورپین ممالک بھیجے۔ حکومت اپنے لوگوں کو دیگر مذاہب کے علوم کا ماہر بنانے کے لیے وسائل فراہم کرے۔ مغرب کو ان کے مذہب سے ایسی حرکات کا جواب دیا جائے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ ایک سفیر کو نکالیں گے تو کیا ضمانت ہے کہ کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں کرے گا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہر مسلمان، ہر پاکستانی ناموس رسالت پر جان دینے کے لیے تیار رہتا ہے اور مسلمانوں کے لیے نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ناموس اپنی جان و مال سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا درست نہیں کہ مغرب والے مذہب کے قریب نہیں ہیں، وہ اپنے مذہب کے قریب ہیں اور جو مذہبی تعلیمات انہیں دی گئی ہیں وہ ان پر بھرپور انداز میں عمل کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے لوگوں کو ایسے معاملات کا علمی جواب دینے کے لیے تیار کرنا ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں جلد پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے۔