خدارا صحافت کو اپنے فرائض نبھانے دیں
پنجابی کا ایک محاورہ اس کالم میں بارہادہراتے ہوئے اُکتانہیں بلکہ تھک چکا ہوں۔ یہ محاورہ متنبہ کرتا ہے کہ اکثر اوقات ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔کئی حوالوں سے ریاستی قوت بھی ’’دانت‘‘ کی مانند ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ ’’دانت‘‘گزشتہ ہفتے کے آغاز سے مسلسل استعمال ہورہا ہے۔گرہیں مگر کھلنے کا نام نہیں لے رہیں۔ میری دانست میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ’’دانت‘‘ کو گرہوں کے بجائے غیر متعلقہ جگہوں پر استعمال کیا جارہا ہے۔
روایتی میڈیا تو عرصہ ہوا ہمارے ہاں ’’تبدیلی‘‘ کو بے چین انقلابیوں نے ’’لفافہ‘‘ ٹھہراکر غیر مؤثر بنادیا۔ حکمران اشرافیہ نے فرض کررکھا ہے کہ جنرل مشرف شاید آج بھی اس ملک کو استحکام اور خوش حالی فراہم کررہے ہوتے اگر ان کے خلاف ’’عدلیہ بحالی‘‘ کی تحریک شروع نہ ہوتی۔ 2007میں وہ تحریک شروع ہوئی تو اپنے سٹوڈیوز میں دو یا تین لوگوں کو بٹھاکر عوام کو سیاسی اور خارجہ امور کی نزاکتیں سمجھانے والے اینکر خواتین وحضرات کیمرے لے کر افتخار چودھری کے ہمراہ پاکستان کے دیگر شہروں کے سفر پر روانہ ہوگئے۔24/7جاری رکھی"Live"رپورٹنگ کے ذریعے پیغام یہ اجاگر ہوا کہ خلقِ خدا ریاست کو ’’ماں‘‘ کی صورت دیکھنا چاہ رہی ہے۔
دریں اثناء اسلام آباد کی ’’لال مسجد‘‘ والا قضیہ بھی رونما ہوگیا۔ اینکر حضرات ’’ریاستی رٹ‘‘ کی دہائی مچانا شروع ہوگئے۔ساتھ ہی ساتھ فریاد یہ بھی ہوئی کہ اس مسجد ومدرسے میں ’’محصور‘‘ہوئی یتیم یا بے سہارا بچیوں کے خلاف ’’انتہائی اقدام‘‘سے گریز برتا جائے۔ ہمارے ہاں کئی سٹار اینکرز نے Live Showsکے دوران حکومت اور مظاہرین کے مابین مسئلے کے ’’پرامن‘‘ حل کے لئے مذاکرات کار کا کردار بھی ادا کیا۔ریاست اس کی بدولت سمجھ نہ پائی کہ وہ اپنی ’’رٹ ‘‘ بحال کرے یا مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات کی راہ بنانے والے ٹی وی سٹارز کی فراست سے رجوع کرے۔
میں بدنصیب ان افراد میں شامل تھا جودہائی مچاتارہا کہ ’’مصالحت کاری‘‘ صحافی کا فریضہ نہیں۔ ایسی دہائی مگر ٹی وی سکرینوں کو رونق فراہم نہیں کرتی۔صحافی بلکہ ’’بکری‘‘ ہوا نظر آتا ہے۔ ’’ریاستی رٹ‘‘ کو اگرچہ بحال ہوکے رہنا تھا۔اسے بحال کرنے کے لئے جب حتمی آپریشن ہوا تو ریاستی رٹ کی دہائی مچانے والوں کی کثیر تعداد بھی مذکورہ آپریشن کو Overkillقرار دینا شروع ہوگئی۔
اس کے بعد پے در پے ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جہاں ’’ریاستی رٹ‘‘ بحال کرنے سے قبل پولیس اور انتظامیہ کو سوبار سوچنا ہوتا ہے۔نواز حکومت کے دوران ماڈل ٹائون والے واقعہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید بے بس بنادیا۔کینیڈا سے آئے ایک ’’انقلابی‘‘ نے اس کابھرپور فائدہ اٹھایا۔ عمران خان صاحب بھی ان کے ’’کزن‘‘ ہوگئے۔ اسلام آباد میں 126دنوں تک پھیلا ایک دھرنا ہوا۔ اپنے اشتہارات کے ’’ایک سیکنڈ‘‘ کا بھی شدت سے خیال رکھنے والے ٹی وی چینلوں نے اپنے باقاعدہ پروگراموں کی بہت محنت سے تیار کردہ Timelineکو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے مذکورہ دھرنے کی لمحہ بہ لمحہ Live Coverageشروع کردی۔ اپریل 2016سے پانامہ-پانامہ کا واویلا شروع ہوگیا۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران ’’لال مسجد‘‘ رونما ہوئی تھی۔پانامہ کی وجہ سے ابھرے بحران میں ’’فیض آباد‘‘والا دھرنا ہوگیا۔ روزمرہ زندگی مفلوج ہوئی نظر آئی۔ حکومتِ وقت بے بس ہی نہیں قابل نفرت بھی بنادی گئی۔میں ان دنوں بھی فریاد کرتا رہا کہ ہیجان کی آگ بھڑکانے سے سے گریز کیا جائے۔ہجوم کو مشتعل کرتے ہوئے حکومتوں کو غیرمستحکم کرنے کی روایت چل پڑے تو یہ اپنے تئیں ایک رویے اور رحجان کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ جن بوتل سے باہر نکل آتا ہے۔ میری صدامگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند تھی۔ ہماری حکمران اشرافیہ اگرچہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ میڈیا اپنی اوقات سے باہر نکل رہا ہے۔اس کا ’’مکوٹھپ‘‘ دیا جائے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ روایتی میڈیا کا مکو اب عرصہ ہوا بہت مہارت سے ٹھپ دیا گیا ہے۔فواد چودھری صاحب کے دریافت کردہ ’’بزنس ماڈل‘‘ کی برکت سے ہمارا میڈیا وطن دشمن قوتوں کی جانب سے مسلط کردہ 5th Generation Warکے ’’سہولت کاروں‘‘ سے پاک تو ہوگیا مگر اپنی بقاء کے لئے اب ICUمیں داخل ہوچکا ہے۔میڈیا کی ساکھ اور اعتبار کی بحالی تاہم ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔
روایتی میڈیا تو بندے کا پتر بن گیا مگر موبائل فون کا توڑ موجود نہیں۔اس کی وجہ سے تقریباََ ہر شہری اب صحافی بھی ہوسکتا ہے۔ Citizen Journalistکو کسی اخبار یا ٹی وی سکرین کی ضرورت نہیں۔اس کے پاس فیس بک ،ٹویٹر اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ ہماری ’’ذہن سازی‘‘ کو بھی اب بے تحاشہ افراد متحرک ہیں۔کیمرے کے روبرو اکیلے بیٹھ کر ’’اندر کی خبریں‘‘ دیتے ہیں۔’’بکائو میڈیا‘‘ جن موضوعات کے بارے میں لب کشائی کی جرأت سے محروم ہے ان موضوعات کی بابت کمال رعونت سے برجستہ گفتگو ہوتی ہے۔ اس گفتگو کے لاکھوں مداحین ہیں۔وفور جذبات میں انہیں Citizen Journalistکی دی ’’خبروں‘‘ کے Fact Checkکی مہلت ہی نہیں۔ہماری حکمران اشرافیہ کی اب یہ خواہش ہے کہ سوشل میڈیا کو بھی روایتی میڈیا کی طرح قابو میں لایا جائے۔گزشتہ جمعہ کے روز تجرباتی طورپر اسے تین گھنٹے تک بند بھی کردیا گیا۔’’جن‘‘ مگر بوتل سے باہر آچکا ہے۔ کرونا کی وباء نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کے بے تحاشہ افراد کو بھی موبائل فونز کے ذریعے رزق کمانے کا عادی بنادیا ہے۔گزشتہ تین مہینے سے ہمارے گھرمثال کے طورپر رات کا کھانا تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر فون کے ذریعے ’’ہوم ڈیلیوری‘‘ کی صورت ہی میسر ہوتا ہے۔ ہمارے متوسط طبقات کے بے تحاشہ افراد اب دفتر نہیں جاتے۔ Zoomکانفرنس سے کام چلاتے ہیں۔بین الاقوامی منڈی اور صارفین سے رابطہ بھی سوشل میڈیا Appsکے ذریعے ہی ممکن ہے۔سوشل میڈیا پر کامل Banہزاروں افراد کو بے روزگار بنادے گا۔ پاکستان کا Imageاس حوالے سے اتنا اہم نہیں۔
فقط سوشل میڈیا کو معاشرے میں ابتری وخلفشار کا ذمہ دار ٹھہرانا ویسے بھی تاریخ اور علم سماجیات کے تناظر میں احمقانہ بات ہے۔ 1857میں ایک تاریخی غدر یا عوام کی بغاوت ہوئی تھی۔ان دنوں تو اخبارات بھی روزمرہّ زندگی کا حصہ نہیں تھے۔ دلی کی جامع مسجد کے مرکزی دروازے کے باہر ہاتھوں سے لکھی کچھ ’’خبریں‘‘ چسپاں ہوتی تھیں۔ وہ چند ہی لمحوں بعد دلی کے ہر گھر میں زیر بحث آنا شروع ہوجاتیں۔اس کے علاوہ چند ’’پیغامات‘‘ تھے جو نظر بظاہرکھانے کے لئے بنائیں ’’روٹیوں‘‘ کے ذریعے پھیلائے جارہے تھے۔
1857تو بہت پرانا قصہ ہے۔قیام پاکستان کے محض چھ سال بعد میرے شہر لاہور میں پہلی بار ’’مارشل لائ‘‘ لگا تھا۔ مذہبی جذبات کی بنیاد پر ابھری ایک تحریک اس کا باعث تھی۔ سوشل میڈیا 1977میں بھی ایجاد نہیں ہوا تھا۔ پاکستان کے عوام فقط سرکار کے چلائے پی ٹی وی کے خبر نامے سے رجوع کرتے تھے۔ اس کا اُردو میں صرف ایک ہی بلیٹن رات نو بجے دکھایا جاتا تھا۔اخبارات کا رویہ بھی ان دنوں قطعاََ ’’فدویانہ‘‘ تھا۔ 1977کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ابھرے احتجاج نے لیکن ’’تحریک نظام مصطفیٰؐ‘‘کی شکل اختیار کرلی۔ ہمارے کئی شہروں میں کرفیو لگانا پڑے۔ریاستی نظام کا بھرپور استعمال مگر اس وقت بھی کام نہیں آیا تھا۔بالآخر جنرل ضیاء کو ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کہتے ہوئے ملک کو ’’خانہ جنگی‘‘ سے بچانا پڑا۔
اس مضمون نما کالم کو لکھتے ہوئے التجا فقط یہ کرنا مقصود ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ہیجان بھڑکانے کے اسباب اس معاشرے کے روایتی اور سوشل میڈیا سے بالا چند ٹھوس حقائق ہوتے ہیں۔ریاستی نظام میں عوام کے بارے میں شفقت برتنے کا رحجان نظر نہ آئے تو وہ بے چین ہوجاتے ہیں۔ان کے دلوں میں موجزن ہوئی مایوسی غصے میں تبدیل ہوکر اُبلناشروع ہوجاتی ہے۔مذہبی جذبات اس غصے کو بھرپور اخلاقی جواز فراہم کردیتے ہیں۔
اتوار کی صبح لاہور میں جو کچھ بھی ہوا اس کی بابت سوشل میڈیا پر ہر نوعیت کی ’’خبریں‘‘ دوپہر بارہ بجے سے پھیلنا شروع ہوگئی تھیں۔ ان میں کئی دل دہلادینے والے مناظر بھی تھے۔ چوک یتیم خانے کے علاوہ بقیہ شہر میں زندگی لیکن معمول کے مطابق رواں رہی۔ نواں کوٹ تھانے کے باہر جو واقعہ ہوا تھا اسے مناسب انداز میں بروقت قابل بھروسہ حکومتی ترجمانوں کے ذریعے روایتی صحافت کے اصولوں کے عین مطابق بیان کرنے کی اجازت فراہم کردی جاتی تو رات کے گیارہ بجے مولانافضل الرحمن اور مفتی منیب صاحب کے لئے الگ الگ پریس کانفرنسیں کرنے کی گنجائش ہی موجود نہ رہتی۔
لوہے کولوہا ہی کاٹ سکتا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے ہیجان کا اصل توڑ بھی فقط قابل اعتماد روایتی میڈیا ہی فراہم کرسکتا ہے۔ صحافت ایک پیشہ ہی نہیں ہنر بھی ہے۔اُردو زبان کی طرح یہ ’’آتے آتے‘‘ آتا ہے۔ خدارا صحافت کو اپنے فرائض نبھانے کی اجازت دیجئے۔