سیاسی جماعتوں کو نظام نہیں ذاتی مفادات عزیز ہیں
لاہور (تجزیہ: محمد اکرم چودھری) حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی پارلیمنٹ کی اہمیت، حیثیت و افادیت کو سمجھنے سے محروم ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں نظام کے بجائے ذاتی مفادات کو اہمیت دیتی ہیں اور یہ رویے روزانہ کی بنیاد پر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ایسے رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا طرز عمل اور بیانات نظام کی دشمنی کے عکاس ہیں۔ خود گھر جانے والے بلاول بھٹو وزیراعظم عمران خان کو گھر جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جگہ پرفارمرز کے لیے ہے جو پرفارم نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا اور اس کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے۔ شاہد خاقان عباسی ایوان کے اندر اور باہر مسلسل ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جس کا فائدہ صرف اور صرف میاں نواز شریف کو ہو سکتا ہے کیونکہ نواز شریف شروع سے ہی صرف اپنی حکومت کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ وہ حکومت میں نہ ہوں تو کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ شاہد خاقان عباسی ان دنوں میاں نواز شریف کے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان جیسے سینئر سیاستدان اور ملک کے سابق وزیر اعظم کو ایسی زبان زیب نہیں دیتی۔ کیا شاہد خاقان عباسی یہ سمجھتے ہیں کہ اسد قیصر ساری زندگی سپیکر قومی اسمبلی رہیں گے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے یہاں لوگ بدلتے رہتے ہیں۔ اگر آج وہ ایسا رویہ اختیار کریں گے تو مستقبل میں انہیں اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ اور رویے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کی زندگی کا محور نواز شریف ہیں۔ اس لیے انہیں کچھ اور نظر نہیں آتا۔ وہ نواز شریف کی اندھی محبت میں پارلیمانی روایات تک بھلا بیٹھے ہیں۔ ایسے الفاظ کچھ اور کریں نہ کریں لیکن نظام کے بے توقیری ضرور کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی جماعت کا وہ گروہ جسے مریم نواز شریف ہینڈل کر رہی ہیں ان کا مقصد صرف اور صرف فساد، انتشار اور عدم استحکام ہے اور شاہد خاقان عباسی یہ کام پوری شدت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں عدم استحکام کا ذمہ دار وزیراعظم عمران خان کو قرار دیتے ہوئے خرابی ٹھیک کرنے یا گھر جانے کا مشورہ دیا ہے۔ خود گھر جانے کے بعد بلاول بھٹو دوسروں کو گھر بھیجنے کی جلدی میں ہیں۔ انہیں یہ خرابی تو دکھائی دے رہی ہے اور وہ اس کے ذمہ داروں کا بھی تعین کر چکے لیکن جو خرابی و تباہی ان کی جماعت نے پاکستان کے عوام کو تحفے میں دی ہے وہ اس کی ذمہ داری کب قبول کریں گے۔ صرف بلاول بھٹو زرداری ہی نہیں میاں نواز شریف بھی گھر جا چکے ہیں۔ حکومت کچھ پارلیمنٹ میں لائے تو اپوزیشن اس پر بھی اعتراض کرتی ہے اور حکومت پارلیمنٹ سے بالا بالا فیصلے کرے تو اس پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ کسی صورت اہم قومی مسائل میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہونے دینا۔ اس معاملے میں حکومتی وزراء کا رویہ بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں نقصان پاکستان کے عوام نے اٹھانا ہے۔ عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے اور سیاست دان گرما گرم بحث کے بعد ٹھنڈے مشروبات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔