ترین، پرویز الٰہی بڑھتا گٹھ جوڑ حکومت کیلئے مسائل پیدا کر سکتا ہے
لاہور (تجزیہ: محمد اکرم چودھری) جہانگیر ترین اور چودھری پرویز الہٰی کا بڑھتا ہوا گٹھ جوڑ وفاق اور صوبے میں حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ "ترین چودھری" کامبی نیشن کہنے کو تو حکومت کا حصہ ہے لیکن حکومتی پالیسیوں سے ناخوش ہونے کی وجہ سے حکومت مخالف مختلف سیاسی دھڑے بھی اس کامبی نیشن کے ذریعے آئندہ انتخابات کے حوالے سے ترتیب پانے والے کسی بھی سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ مستقبل میں جماعت اسلامی بھی (ق) لیگ کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کر لے۔ چودھری پرویز الٰہی اور جہانگیر ترین میں بڑھتی ہوئی قربتیں حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔ چینی سکینڈل میں جہانگیر ترین کو نشانہ بنائے جانے کے موقف کی حمایت کرنے والے اراکین اسمبلی کا ایک بڑا دھڑا تیزی سے جہانگیر ترین کیمپ کا حصہ بن رہا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق اب تک 50 سے زائد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جہانگیر ترین کو اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ہیں اور یہ اراکین غیر مشروط طور پر حکومتی اقدامات کی مخالفت میں کھڑے ہوئے ہیں۔ جہانگیر ترین تیزی سے مستقبل کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر متحرک اور فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ رہے ہیں۔ ممکن ہے وہ فوری طور پر پی ٹی آئی کو بڑا نقصان نہ پہنچا سکیں لیکن آئندہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا خطرہ جہانگیر ترین اور ان کے حامی ہی ثابت ہوں گے۔ جو لوگ اس صورتحال میں جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے لیے واپس اپنی اپنی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی یا پھر پی ٹی آئی میں جانا ممکن نہیں ہو گا۔ ان حالات میں جہانگیر ترین نے ایسے تمام سیاست دانوں کے لیے پناہ گاہ کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کے سیاسی رفقاء مستقبل میں مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنیں یا پھر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ جیسا کوئی نیا سیاسی گروپ یا جماعت وجود میں آئے اور پھر اس دھڑے کو مسلم لیگ (ق) میں ضم کر دیا جائے۔ البتہ یہ واضح ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھی ایک الگ سیاسی ہدف کے ساتھ کھل کر آگے بڑھیں گے۔ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی بہتر سیاسی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ حالات کو اپنے حق میں کرنے اور سیاسی لوگوں کو عزت دینے کا فن جانتے ہیں۔ یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ہی لوگوں کو ناراض کر رکھا ہے اور اپنے ہی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ان کا جائز حق و مقام نہیں دیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ آج 50 سے زائد اراکین اسمبلی حکومت کی مخالفت میں جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں حتی کہ حکومت کے اتحادی بھی حکومت مخالفین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کی بڑی سیاسی ناکامی ہے۔