• news
  • image

حافظ حقانی میاں قادری

اُمالمومنین سیدہ خدیجہؓ آنحضرت محمدؐ کی سب سے پہلی اہلیہ محترمہ ہیں،آپ  کانام خدیجہ، کنیت اُم ہند اور لقب طاہرہ تھا۔ سیدہ خدیجۃ الکبریؓ عرب کے شریف ترین اور معز زترین خاندان قریش کی خاتون تھیں۔ سیدہ خدیجہ ؓ کے والد بزرگوار خویلد بنت اسد، ایک کامیاب تاجر تھے ،مکہ میں قیام پذیر تھے اور اپنے قبیلہ میں اپنی راست بازی اور دیانت داری کے باعث بڑی اہم شخصیت تھے۔حضرت سیدہ خدیجہ  اپنے بچپن ہی سے نہایت شریف النفس اور نیک طبع تھیں۔ آپ جب بڑی ہوئیں تو اپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اخلاق کی بدولت طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ سیدہ خدیجہ ؓکے خاندان کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔اب کوئی فرد تجارت کی نگرانی کے لئے باقی نہ رہا۔ جس سے سیدہ خدیجہ ؓ  کوبہت وقت پیش آنے لگی ۔حضرت خدیجہ ؓ بہت باصلاحیت خاتون تھیں۔انہوں نے اپنی خاندانی تجارت کو خود سنبھالا۔اپنے بعض اعزاء واقرباء کو معاوضہ پر مال تجارت دے کر اپنے سلسلہ تجارت کو جاری رکھا۔ آپ انہیں رشتہ داروں کے ذریعہ مال باہر بھیجتی تھیں۔ اس زمانے میں قبیلہ قریش کے تجارتی روابط شاماور اس کے اطراف کے ساتھ تھے۔ چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ کے تجارتی اونٹ بھی زیادہ تراسی علاقے میں جاتے تھے۔حضرت خدیجہؓ نے اپنی تجارت کو فروغ دیا اور اپنے یہاں بعض افرادکو ملازمت پر بھی رکھ لیا۔ فراست حسن تدبیراور دیانت داری کی وجہ سے ان کی تجارت دن بدن ترقی کررہی تھی اور سیدہ خدیجہ ؓ کی نظر ایک ایسے شخص کو تلاش کررہی تھیں جو بے حد ذہین، راست باز اور امانت دار ہو اور وہ اپنے تمام ملازمین کو اس نگرانی میں تجارت کے قافلوں کے ہمراہ باہر بھیج سکیں۔
اللہ کے پیغمبر حضرت محمد ؐ کے چچا ابو طالب کو ان حالات و واقعات کا علم تھا۔ ایک بار جب سیدہ خدیجہ ؓ کے تجارتی قافلہ کی روانگی کا وقت آیا تو ابو طالب نے رسول اللہ ؐ سے کہا کہ تم کو خدیجہ ؓ سے ملنا چاہیے۔ ان کاسامان تجارت ملک شام کی طرف جائے گا ۔بہتر ہوتا کہ تم بھی اس قافلہ کے ساتھ سامان تجارت لے کر جاتے، مگر میرے پاس سرمایہ نہیں ہے کہ تم کو سامان تجارت کے ساتھ روانہ کروں، ورنہ میں خود تم کو سرمایہ مہیا کردیتا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضور اکر مؐ کی عمر مبارک پچیس برس کی تھی۔آپ ؐ کی صفات حمیدہ اور اخلاق عالیہ کا چرچا گھر گھر اور قریہ قریہ پھیل چکا تھا۔لوگوں کو آپؐ مکہ میں’’الصادق‘‘ اور الامین‘‘ کے معززالقاب سے یاد کئے جاتے تھے۔چنانچہ جب سیدہ خدیجہ الکبریؓ کو ابوطالب کی اس گفتگو کا علم ہواتو انہوں نے خود ہی محمد کریم ؐ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپؐ میرا سامان تجارت لے کے ملک شام کی طرف جائیں ،میں اپنا غلام میسرہ بھی آپ کے ہمراہ کردوں گی، نیز یہ کہ میں جتنا معاوضہ دوسروں کو دیتی ہوں اس کا دوگنا آپ ؐکودوں گی۔آپؐنے اس کو قبول فرمالیا۔سر کار دو عالم ؐ کی دیانت داری، معاملہ فہمی اور خوش اسلوبی کی وجہ سے تمام سامان تجارت دوگنا منافع پر فروخت ہوگیا۔
دوران سفر آپؐ نے اپنے ہمسفروں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کیا کہ ہر ایک آپؐ کا مداح ہوگیا۔ قافلے کی مکہ واپسی پرسیدہ خدیجہ ؓ کو اپنے غلام میسرہ کی زبانی سفر کے  حالات اور حاصل ہونے والے منافع کی تفصیلات کا علم ہو تو وہ حضور  پاک ؐسے بہت خوش ہوئیں۔ جتنی رقم انہوں نے آپؐ کو دینے کا وعدہ کیاتھا اس سے زیادہ رقم انہوں نے آپ ؐ کی خدمت اقدس میں پیش کی۔حضرت خدیجہ ؓکی دولت وثروت،شریفانہ اخلاق،اور کریمانہ کردار نے تمام قبیلہ قریش کو اپنا گرویدہ بنالیاتھا۔آپ  حضرت محمدؐ کے اوصاف جلیلہ کا مسلسل تذکرہ سنا اور آپؐ سے نکا ح کا ارادہ کرلیا ۔چنانچہ حضر ت خدیجہ نے حضور ؐکے پاس نکاح کا پیغام بھیجا ۔حضورؐکی جانب سے قبولیت پالینے کے بعد وہ اپنے چچا عمر وبن اسد کوبلا کر لائیں، پھر ان کو اس رشتہ کے بارے میں مطلع کیا۔ آپؐ کے چچا حضرت حمزہ ،ابو طالب اور خاندان کے افراد حضرت خدیجہ ؓ کے گھر جمع ہوئے اس موقع پر حضرت خدیجہ ؓ نے اپنے خاندان کے دیگر افراد کوبھی بلایا تھا۔ طالب نے خطبہ نکاح پڑھا اور عمر وبن اسد کے مشور سے پانچ سودرہم مہر مقر ہوا۔ اس وقت اللہ کے نبی محمدؐ کی عمر پچیس سال اور سیدہ خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال کی تھی۔سیدہ خدیجہ ؓ سے نکاح کے پندرہ سال بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ؐ کو نبوت کا تاج پہنایا۔
حضرت سیدہ خدیجہ الکبریؓ نے صرف آپ ؐ کی نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ اپنی عمر مبارک تک رسول اللہ ؐکی بڑی مددگار بنی رہیں۔ ہر موقع پر نبی اکرمؐکی سچی رفیقہ حیات ثابت ہوئیں۔جب حضور انورؐ کفار مکہ کی بے ہودہ باتوں اور آپ کی تکذیب سے افسردہ خاطر ہوتے اور اس بات کاصدمہ لئے گھر آتے تو سیدہ خدیجہ ؓعرض کرتیں۔ اے اللہ کے رسو لؐ رنجیدہ نہ ہوں ۔کیاکوئی ایسا رسول آج تک آیا ہے جس کا لوگوں نے مذاق نہ اڑایا ہو ۔حضرت خدیجہ ؓ کی اس گفتگوسے آپؐ کی طبیعت کا ملال دور ہوجاتا۔ رسول اللہ ؐ کو جب نبوت عطا ہوئی تو اس کے بعد آپ ؐ کی تجارت کاسلسلہ چھوٹ گیا اور آپؐ اپنا مکمل وقت توحید باری تعالیٰ کے پیغام کو پھیلانے میں لگانے لگے۔ اس وقت سیدہ خدیجہ ؓ نے اپناسارا مال آنحضرت ؐ کے حوالے کردیا ۔برس ہابرس یہی مال آپ ؐکے لئے ذریعہ معاش بنارہا۔ سیدہ خدیجہ الکبریؓ نے جہاں اپنی اولاد کی پرورش نہایت حسن وخوبی سے کی وہیں امور خانہ داری کو بھی نہایت احسن طریقے سے نبھایا ، آپ باجود متمول اور صاحب ثروت خاتون ہونے کے اپنے شوہر نامدار حضور اقدس ؐ کی خود خدمت کیا کرتی تھیں۔
نبوت کے ساتویں سال کفار نے  آپ ؐ کے خلاف نہایت سخت قدم اٹھایا۔ انہوں نے ایک معاہدے کے ذریعہ آپؐ کے اور آپؐ کے خاندان کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا،مشرکین کے اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ بنو ہاشم اور بند عبد المطلب کا بائیکاٹ کردیاجائے۔ نہ کوئی شخص ان کے پاس بیٹھے اور نہ ان سے بات چیت کرے۔ نہ خرید فروخت کرے اور نہ ہی اپنے گھر آنے دے اور نہ ان کے گھر جائے اور اس وقت تک صلح نہ کی جائے جب تک یہ لوگ (نعوذباللہ ) حضور اقدس آپؐ کو قتل کرنے کے لئے ہمارے حوالے نہ کردیں۔ یہ معاہدہ زبانی باتوں پر ختم نہ ہوا، بلکہ تحریری طور پر لکھ کر کعبہ پر لٹکا دیا گیا ۔ اس معاہدہ کی وجہ سے آپ ؐ مجبور ہوکر اپنے اہل خانہ کے ساتھ پہاڑی گھاٹی گئے ۔ یہاں آپؐ کو تین سال گزارناپڑے۔ ان تین برسوں میں آپ ؐ کے ساتھ اہل خانہ اور قبیلہ کے افراد پر فاقوںپر فاقے گزرے ،مرد عورت، بوڑھے سب ہی بھوک سے بیتاب  ہوکر چیختے اور روتے تھے۔بائیکاٹ کی وجہ سے باہر  سے کوئی چیز آپ ؐ کے پاس نہیں آسکتی تھی اور نہ آپ مکہ کے بازار سے کوئی چیز خرید سکتے تھے۔
اس سختی کے زمانے میں لوگوں کو درختوں کے پتے اور سوکھا چمڑا بھی کھانا پڑا۔اگر کوئی شخص آپ ؐکے پاس کوئی چیز پہنچانا چاہتا تو وہ رات کے اندھیرے میں چھپا کرہی بھیجتا۔
ایسے نامساعد حالات میں سیدہ خدیجہ ؓ نا صرف آپ ؐ کی غم گسار تھیں بلکہ ہر موقع پر آپؐ کی نصرت ومدد بھی فرماتی تھیں۔
رسول اللہ ؐ کو حضرت خدیجہؓ سے بے انتہا محبت تھی۔ ان کی حیات میں آ پ ؐنے دوسرا نکاح نہیں کیا۔ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر چہ میں نے  خدیجہؓ کو نہیں دیکھا مگر جتنا رشک مجھے حضرت خدیجہ ؓ پر تھا کسی دوسری بیوی پر نہ تھا۔ ایک دن رسول اللہ ؐ نے سیدہ خدیجہ ؓ کی تعریف کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ  کو رشک ہوا۔انہوں نے کہا کہ کب تک آپ ؐ اس عورت کو یاد کرتے رہیں گے۔جو کہ اب وفات پاچکی ہے اور اب ا للہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو ان سے بہتر بیوی دے دی ہے۔یہ بات رسول اللہ ؐ کو ناگوار گزری اور فرمایا نہیں، بخدا مجھے اس سے بہتر بیوی نہیں ملی۔ خدیجہ ؓ اس وقت ایمان لائیں جب تمام لوگوں نے میراانکار کردیاتھا۔انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب سب لوگوں نے مجھے جھٹلادیاتھا۔انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی جب کہ دوسروں نے مجھے محروم کردیاتھااور اللہ نے مجھے ان سے اولاد دی۔۔۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن