وزیراعظم عمران خان جہانگیر ترین ملاقات پی ٹی آئی ایک اور یوٹرن کیلئے تیار
لاہور (تجزیہ: محمد اکرم چودھری) وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کی ملاقات سے پاکستان تحریک انصاف ایک نئے سیاسی بحران کی طرف بڑھے گی۔ اس ملاقات سے وزیراعظم کی کرپشن یا مافیاز کے خلاف مہم اور بیانیے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس ملاقات کو پاکستان تحریک انصاف کا ایک اور یو ٹرن کہا جا سکتا ہے۔ عمران خان کرپشن اور مافیاز کے خلاف لڑتے رہنے کا اعلان کرتے ہیں تو پھر جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں سے ان کے مطالبے پر ہونے والی ملاقات کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آئے گا کہ جب جہانگیر ترین کے خلاف کیسز دوران وزیراعظم سے ملاقات کیسز یا نظام پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا یہ موقف رہا ہے کہ انہیں سیاسی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ احتساب کے ادارے، تفتیشی ادارے آزاد و خود مختار نہیں ہیں، انہیں حکومت سے احکامات ملتے ہیں اس ملاقات کے بعد ان حالات میں پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن کو کیا جواب دے گی۔ اور عوامی سطح پر جب یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ این آر او نہ دینے کا نعرہ لگانے والوں نے جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کیوں کی ہے تو پی ٹی آئی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اس ملاقات کی کیا دلیل پیش کریں گے۔ اگر وزیراعظم عمران خان جہانگیر ترین سے ملاقات کرتے ہیں تو پھر کیا وہ اپوزیشن کے جنہیں مختلف کیسز کا سامنا ہے کیا ان سے بھی وزیراعظم عمران خان ملاقات کریں گے۔ پی ٹی آئی کے اس فیصلے سے ملک میں ایک اور سیاسی بحران پیدا ہو گا اور اس اہم اور مشکل وقت میں عوام کے منتخب نمائندے عوامی مسائل کے بجائے سیاسی بحث میں الجھے رہیں گے۔ جہاں تک تعلق وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے تعلقات کا ہے ان کے راستے تقریباً جدا ہو چکے ہیں۔ کوئی معجزہ ہو تو دونوں میں مفاہمت ہو سکتی ہے۔ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھی آئندہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر الیکشن نہیں لڑیں گے۔ جہانگیر ترین اور عمران خان کے راستے جدا ہو چکے ہیں۔ جہانگیر ترین ایک کامیاب بزنس مین اور ذہین سیاست دان ہیں۔ ملک کا نظام کچھ ایسا ہے کہ جائز راستے سے کام کرنا نہایت مشکل ہے۔ ہر کاروبار میں کہیں نہ کہیں غیر قانونی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کوئی کاروبار ایسا نہیں جہاں قانون کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ ایسا ہی جہانگیر ترین کے کاروبار میں ہوتا ہو گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف غیر قانونی کام جہانگیر ترین کے کاروبار میں ہوا ہے یا صرف جہانگیر ترین کو نشانہ بنایا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ اس ملاقات سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ جہانگیر ترین کو بھی کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ ان کے ساتھی بھی اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ اس ملاقات سے صرف اور صرف پی ٹی آئی کے ترجمانوں پر دباؤ بڑھے گا۔ عوامی سطح پر حکمران جماعت پر تنقید میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے این آر او نہ دینے کے بیانیے کو شدید دھچکا پہنچے گا۔