• news

غیر قانونی حراست میں رکھے شہریوں کی پولیس افسروں کی جیب سے معاوضہ دیا جائے 

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائیکورٹ نے شہریوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنے اور تشدد کرنے والے پولیس افسروں کے متعلق بڑا فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت نے غیر قانونی حراست میں رکھے جانیوالے شہریوں کو پولیس افسروں کی جیب سے معاوضہ دینے اور اقوام متحدہ کنونشن کے تحت گرفتار ملزموں پر تشدد نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس چودھری عبدالعزیز نے 15 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں پولیس میں تشدد کا رویہ ختم کرنے کیلئے اہلکاروں اور افسروں کی تربیت اور مقدمات میں گرفتاری کے وقت فوری طور پر ملزموں کو گرفتاری کی وجوہات بھی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے پنجاب کے تمام تھانوں میں پولیس رولز اور پولیس آرڈر کے تحت روزنامچہ رجسٹر مرتب کرنے اور تمام تھانوں کی پولیس رولز کے مطابق انسپکشن کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے عملدرآمد کیلئے فیصلے کی کاپی آئی جی پنجاب کو بھی بھجوانے کا حکم دیا ہے۔ تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے اکثر تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر مرتب ہی نہیں کیا جاتا۔ پولیس کا روزنامچہ رجسٹر ترتیب نہ دینے کا مقصد تھانوں میں ہونے والی لاقانونیت کو چھپانا ہوتا ہے۔ تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر مرتب نہ کرنا اعلی پولیس افسروں کی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔ پولیس کے برے اعمال نے کریمنل جسٹس سسٹم کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ عام طور پر پولیس ملزموں کو زیادہ عرصہ حراست میں رکھنے کیلئے انکی گرفتاری روزنامچہ رجسٹر میں درج ہی نہیں کرتی۔ آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی آزادی اور زندگی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ گرفتار شہری کو اسکی مرضی کے وکیل سے مشاورت کرنے کا حق دینے کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ تھانوں میں شہریوں کی غیرقانونی حراست انکے بنیادی حقوق کی نفی ہے۔ عدالتیں غیرقانونی طور پر حراست میں رکھے گئے شہریوں کے معاملے کو معمولی نہیں سمجھ سکتیں۔ ریاست کے ہر ادارے پر آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ہر شہری کی تکریم لازم ہے۔ آئین کا آرٹیکل 14 شہری سے ثبوت کی غرض سے اس پر تشدد کرنے سے روکتا ہے۔ آئین اس ملک کا مقدس ترین قانونی دستاویز ہے۔ ریاستی اداروں کو شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پولیس کی غیرقانونی حراست میں شہریوں پر تشدد اور بے حرمتی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس کے غیر آئینی رویے سے نمٹنے کیلئے عدالتوں کو عملی طور پر آگے آنا پڑے گا۔ حالیہ برسوں میں پولیس نے اپنے کام میں زوال پیدا کر لیا ہے۔ پولیس قوانین اور رولز کے تحت گزیٹڈ  آفیسر پر لازم ہے کہ وہ سال میں 2 بار تھانوں کی انسپکشن کرے۔ بد قسمتی سے پولیس تھانوں کی انسپکشن اور دیگر لازم شرائط ختم ہو چکی ہیں۔ شہریوں کے آئینی حقوق کو پامال کرنے والے پولیس افسروں کیخلاف مقدمات درج کرنے اور محکمانہ کارروائیوں کا حکم دیا جائے۔ عدالتیں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے موجود ہیں۔ شہریوں کے بنیادی حقوق پامال کرنے والے سرکاری ملازم کو چھوڑنا آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز کالعدم کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت امن و امان کیلئے جانیں دینے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کی قربانیوں سے غافل نہیں لیکن پولیس کی جانب سے شہریوں کے حقوق کی پامالی کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن