کرونا بھارتی گجرات کے 8شہروں میں کرفیو مودی انڈیا کو تناہی کے دہانے پر لے آئے
نئی دہلی (نوائے وقت رپورٹ) بھارت میں مسلسل چھٹے روز کرونا وائرس کے تین لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کرونا کے مسلسل چھٹے روز تین لاکھ سے زائد کیسز سامنے آئے جن میں 3 لاکھ 23 ہزار سے زائد افراد کے کرونا میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہوئی جبکہ مزید 2771 افراد ہلاک ہوگئے۔ بھارت میں کرونا کے کل کیسز کی تعداد ایک کروڑ 76 لاکھ 36 ہزار سے زائد ہوگئی ہے جبکہ اموات ایک لاکھ 97 ہزار سے زیادہ ہیں۔ بھارت میں مسلسل لاکھوں کیسز سامنے آنے سے انتہائی بدترین صورتحال کا سامنا ہے جہاں ہسپتال مکمل بھر چکے ہیں اور مریضوں کے لیے آکسیجن کی قلت ہے اور آکسیجن نہ ملنے سے متعدد اموات ہوئی ہیں۔ دوسری جانب بھارتی الیکشن کمشن نے ملک میں کرونا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے انتخابات میں نتائج آنے پر جیت کی خوشی منانے پر پابندی عائد کردی ہے جس کے تحت انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی کوئی بھی جماعت یا امیدوار اپنی فتح کے جشن کے لئے کسی ریلی یا جلسے کا انعقاد نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ ریاست گجرات کی حکومت نے رات کے اوقات میں لگائے گئے کرفیو کو مزید 9 شہروں تک پھیلا دیا ہے جس کے بعد اب ریاست گجرات کے کل 29 شہروں میں رات کے اوقات میں کرفیو نافذ ہے۔ بھارتی ڈرامے ’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘ سے مقبولیت پانے والی اداکارہ حنا خان بھی کرونا وائرس سے متاثرہو گئیں۔ چند روز قبل بھارتی اداکارہ حنا خان کے والد کا انتقال ہوا تھا اور اب اداکارہ کرونا سے متاثر ہونے کے بعد قرنطینہ میں ہیں۔ کے ایم ایس کے مطابق انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے نائب صدر ڈاکٹر نوجوت داہیا نے کرونا پھیلاؤ کا ذمہ دار مودی کو قرار دیتے کہا ہوئے کہا وہ ’’سپر سپریڈر‘‘ ہیں۔ مودی کئی ریاستوں میں انتخابی مہم کے دوران جلسے کرتے رہے اور کرونا کی دوسری لہر کے موقع پر کمبھ میلے کی اجازت دی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے جلسوں سے خطاب میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ مریضوں کو گاڑیوں میں آکسیجن لگائی جانے لگی۔ سٹریچر نہ ہونے پر ایک سے دوسرے وارڈ میں بذریعہ موٹرسائیکل منتقلی کی گئی۔ عالمی ادارہ صحت نے صورتحال گھمبیر قرار دیدی۔ برطانیہ سے طبی امداد کی کھیپ بھارت پہنچ گئی ہے۔ سوئٹزرلینڈ نے بھارت کو ہائی رسک ممالک میں شامل کر دیا۔ بیلجیئم اور فلپائن نے بھی بھارت سے آنے والوں پر پابندی لگا دی۔ عالمی ادارہ صحت نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ