رمضان اور حقوق العباد
یوں تو عام دنوں میں بھی شاطر اکثر میری جان کھاتا رہتا ہے لیکن جب سے رمضان کا مقدس مہینہ شروع ہوا ہے میرے پاس اس کی آمد و رفت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ایک روزتنگ آکر میں نے اس کی منت کی کہ ’’کم از کم اس ایک مہینے کے لئے مجھے معافی دے دو‘‘ ۔’’لاحول ولاقوۃ الا باللہ!میں نے کہا’’یار!اتنے بڑے جہان میں اس مقدس مہینے میں ایمان خراب کرنے کے لئے کیا تمہیں ایک میں ہی ملا ہوں اور بھی بے شمار لوگ ہیں تم اپنے یہ شیطانی حربے اُن پر کیوں نہیں آزماتے‘‘۔یہ سن کروہ اوورایکٹنگ کے انداز میںکہنے لگا’’ کیونکہ مجھے تم سے پیار ہے اس لئے تمہارے اس خشک رویے کے باوجودتمہارے پاس چلا آتا ہوں‘‘۔اس کے ساتھ ہی وہ یکدم اپنی بات کا رخ بدل کر کہنے لگا ’’ جگر!پچھلے ہفتے میں نے تمہیں انگریزی گانوں کی چند زبردست ویڈیوز واٹس ایپ کی تھیں ذرا وہ تو مجھے واپس واٹس ایپ کردو مجھ سے غلطی سے ڈیلیٹ ہوگئیں ہیں‘‘۔میںنے بے زاری سے کہا’’تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی سب سے پہلے میں نے اپنے موبائل سے اس قسم کا سارا فضول موادڈیلیٹ کردیا تھا اب میرے موبائل میں صرف دینی ویڈیوز اور پوسٹیں ہیں کہو تو ان میں سے کچھ بھیج دیتا ہوں شاید کسی اچھی بات کا تم پر بھی اثر ہو جائے‘‘۔اس پروہ کہنے لگا’’تمہارا کیا خیال ہے صرف اس طرح کی اُلٹی سیدھی ویڈیوز اور پوسٹیں دیکھنے سے ہی بندے کا ایمان خراب ہوتا ہے، ان کے علاوہ زندگی کے اور کوئی معاملات نہیں ہیں جن کا ایمان سے تعلق ہو‘‘۔میں نے کہا’’ کیوں نہیں!یقینا ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا’’اچھا!تو پھر یہ جھوٹ،فریب،دغا بازی،چغلی،غیبت اور دیگر ہیرا پھیریوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جنھیں تم کاروباری گر کہتے ہو‘‘۔میں نے کہا’’یار!دنیاداری میں یہ چھوٹی موٹی چیزیں تو چلتی رہتی ہیں‘‘۔ اس پر وہ کسی عالم آن لائن کے انداز میںکہنے لگا’’تمہیں پتا ہے قران و حدیث میں جہاں ایک طرف حج ،نماز ،زکوۃ اورروزے کا حکم ہے وہاں کسی کو دکھ تکلیف دینے، چور بازاری،دغا فریب،جھوٹ،چغلی اور حسد جیسی تمام برائیوں سے بھی منع فرمایا گیا ہے‘‘۔میں نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا’’ مولانا!بجا ارشاد فرمایا آپ نے ‘‘۔وہ کہنے لگا’’تو پھر اس حوالے سے تمہارا کیا ارادہ ہے ان سب مکروہات کو کب اپنی ذات سے ختم کر رہے ہو آدھے مسلمان تو تم ہو ہی گئے ہو‘‘۔میں نے کہا’’آدھا کیوں الحمدللہ پورا مسلمان ہوں اللہ تعالیٰ میری پچھلی تمام کوتاہیاں معاف کرے جب سے رمضان شروع ہوا ہے روزے رکھنے کے ساتھ باقاعدگی سے پانچ وقت کی باجماعت نماز اورتراویح ادا کر رہا ہوں‘‘۔یہ سن کر وہ کہنے لگا’’ اللہ تعالیٰ تمہاری عبادات قبول فرمائے لیکن میرے دوست عبادات کے ساتھ معاملات کی درستگی بھی بہت ضروری ہے‘‘۔اس پر میں نے کہا’’ یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے اور بیشک وہ بڑا غفور و رحیم ہے ‘‘۔اس پر وہ ہنس پڑا’’یقینا اللہ بڑا غفور و رحیم ہے لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ جہاں بات حقوق العباد کی آتی ہے یہ معاملہ رب اور بندے کے درمیان نہیں بندے اور بندے کے درمیان ہوجاتا ہے جسے معاف کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بھی اللہ نے اپنے بندوں کو دیا ہوا ہے‘‘۔یہاں رک کر وہ کہنے لگا یہ بتائو کیا تم نے حضرت علامہ اقبالؒ کا شعر ’’زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل،دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘ کہیں پڑھا یا سنا ہے۔میں نے کہا ’’پڑھا بھی ہے اور سنا بھی ہے‘‘۔اس پر وہ کہنے لگا’’صرف پڑھا اور سنا ہی ہے یا اسے سمجھا بھی ہے‘‘۔میں نے کہا’’اس میں سمجھنے والی کیا بات ہے‘‘۔وہ کہنے لگا’’سمجھنے والی بات یہ ہے کہ مکمل مسلمان بننے کے لئے ضروری ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا خیال رکھا جائے۔دین یہ نہیں ہے کہ دنیا کمانے کے لئے تو ہم جھوٹ،فریب اوردغا بازیوں کا سہارا لے کردن رات ایک کردیں لیکن جہاں بات حقوق العباد کی آئے وہاں ان شاء اللہ کہہ کر اپنے تئیں بری الذمہ ہوجائیں اور اس کے بعدکسی ایک مخصوص گھڑی، رات یا مہینے میں اللہ کے حضور معافیاں مانگ کر یہ سمجھ لیں کہ اللہ ہماری سب زیادتیوں کو بخشش دے گا جگر!یہ سراسر خود فریبی ہے‘‘۔شاطر کی یہ ساری گفتگو سن کر ندامت سے میری آنکھیں بھر آئیں میں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا تے ہوئے کہا’’ یار شاطر! مجھے معاف کردو تمہاری اس ایمان افروزگفتگو نے میری آنکھیں کھول دی ہیں مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا تمہارا باطن اس قدرروشن ہے، میرے دوست میں عہد کرتا ہوں کہ آج ہی سے اپنی ذات میں تمام تر اخلاقی برائیوں کو ختم کرکے اپنے معاملات درست کرنے کی پوری کوشش کرونگا مگرتم بھی مجھ سے وعدہ کرو کہ کل سے روزہ رکھ کر ہم دونوں اکٹھے پانچ وقت کی نماز اور تراویح پڑھنے مسجد جائیں گے ‘‘