• news

این اے 249ابتدائی نتائج ناکام حکومتی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت

تجزیہ: محمد اکرم چودھری
این اے 249 کے ابتدائی نتائج حکومت کی ناکام پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایک ایسا حلقہ جہاں سے پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تھی وہاں بیٹنگ آرڈر میں پہلے سے نچلے نمبروں  پر جانا حکمران جماعت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ این اے 249 کے ابتدائی نتائج ثابت کرتے ہیں کہ کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی عوام سے اپنے رابطوں کو بہتر بنایا ہے اور حیران کن طور پر پاکستان مسلم لیگ نون کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نوشہرہ کے ضمنی انتخابات ہوں یا پھر وزیر آباد یا پھر ڈسکہ یا پھر این اے دو سو انچاس حکومت کو ہر جگہ پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کے منفرد ضمنی انتخابات ہیں جہاں ہر طرف حکومت ناکام ہو رہی ہے۔ عمومی طور پر ضمنی انتخابات میں حکومت ناکام نہیں ہوتی لیکن یہاں ہر دوسرے ضمنی الیکشن میں حکومت مخالف جذبات کا اظہار یہ ثابت کر رہا ہے کہ ہر صوبے میں ہر حلقے میں لوگ حکومت کے خلاف ہیں۔ ملک بھر میں مسلم لیگ ن کا ٹرینڈ یہ ثابت کر رہا ہے اسے مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص این اے دو سو انچاس میں مفتاح اسماعیل کو پڑنے والے ووٹ یہ ثابت کرتے ہیں کہ کراچی میں بھی ن لیگ کا ووٹ بینک بڑھ رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اپنی غلط پالیسیوں اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ایک طرف ضمنی انتخابات میں ناکامی کا سامنا ہے تو دوسری طرف پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہے۔ جہانگیر ترین کے ساتھ جانے والے بھی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اپنا سیاسی مستقبل بچا رہے ہیں کیونکہ جہانگیر ترین کے ہمخیال سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی نمائندگی کرتے ہوئے عوامی سطح پر دفاع یا ووٹ مانگنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف فیصل واڈا کو نااہلی سے بچانے کے لیے سینیٹر بنوانے کے فیصلے نے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے شفاف احتساب کے نعرے کو مشکوک بنا دیا ہے ایک رکن قومی اسمبلی جھوٹ بولتا ہے کاغذات میں غلط بیانی کرتا ہے جماعت اسے بچانے کے لیے اپنی سیٹ بھی ضائع کرتی ہے اور اسے سینٹ میں پہنچا دیتی ہے دوسری طرف اپنے ایک انتہائی اہم رکن یعنی جہانگیر ترین کے خلاف مختلف موقف اختیار کرتی ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ جو جماعت اپنی جماعت کے اہم اراکین کے ساتھ شفاف احتساب نہیں کر سکتی وہ مخالف سیاسی جماعتوں کے معاملے میں کیسے غیر جانبدار رہ سکتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے عوام سے اپنے رابطے بہتر بنانے کے بجائے چھپنے کو ترجیح دی، عوام سے اپنا رشتہ مضبوط بنانے کے بجائے موبائل نمبر بدلے اور ووٹرز کو نظر انداز کیا، وزیراعظم عمران خان نے بہتر بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی میں ترقیاتی فنڈز سے اراکین کو دور کر کے بھی سیاسی غلطی کی، پی ٹی آئی کے اراکین نے بھی ترقیاتی فنڈز نہ ملنے پر عوام کو نظر انداز کیا حالانکہ ان فنڈز کے بغیر بھی روزمرہ کے کاموں میں عام آدمی کے بیشمار مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، تھانہ کچہری، پٹواری، انصاف کی فراہمی اور محلے کی سطح پر ووٹرز کی مدد کے کئی طریقے ہیں لیکن پاکستان تحریکِ انصاف نے اس پہلو کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور ضمنی انتخابات میں عوامی ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن