• news

بجلی قیمت بڑھانے سے معذرت،آئی ایم ایف سانس لینے دو،ٹارگٹ نہ دو ،شوکت ترین

اسلام آباد  (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پروگرام میں سخت شرائط فرنٹ لوڈ کر دیں ،حکومت نے ان  پر عمل کیا جس کی  سیاسی قیمت  ہے  ،آئی ایم ایف پروگرام سے نکلیں گے نہیں تاہم اس کے طریقہ کار کو تبدیل کریں گے،جس طرح سے'آئی ایم ایف' کہہ رہا ہے ویسے نہیں کرسکتے،  ہم نے متبادل دیئے ہیں، ان کا ایک  طریقہ ہے اور ہم  وہی چیزیں دوسرے طریقہ سے کرنا چاہتے ہیں، ہمیں سانس  لینے دو، ترقی کرنے دو، معیشت کا پہیہ چلے گا توآٓٓئی ایم ایف کا پروگرام بھی پورا ہو جائے گا  اور ہمارا بھی  ہو جائے گا، ہم نے انہیں ثابت کرنا ہیکہ ہم جو اقدامات کریں گے اس سے ریونیو بڑھالیں گے، ہمیں ٹارگٹ نہ دیں۔ ٹیکسز کے حوالے سے بھی ایسے ہی اقدامات کریں گے، ہم اچانک سے بڑا اضافہ نہیں کرسکتے، تھوڑا تھوڑا اضافہ کرکے ہم آگے جاسکتے ہیں اور آئی ایم ایف کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے 'وزیراعظم بجلی  ٹیرف بڑھانے کے حق میں نہیں، ٹیرف پر آئی ایم ایف ٹیم سے بات چیت جاری ہے، بجلی کی قیمتیں بڑھانے سے آئی ایم ایف سے معذرت کریں گے،  اس سے مسلہ حل نہیںہو گا بلکہ مہنگائی بڑھے گی۔ پاور سیکٹر میں کپیسٹی پے میینٹ کا گوریلا بیٹھا ہوا ہے ،ریونیو اور پاور سیکٹر چیلنجز ہیں ، ملک کے مختلف حصوں میں اشیاء کے سٹریٹیجک ریزور بنائیں گے ، اس پر پیسہ  خرچ کیا جائے گا مڈل مین کی کمر توڑ دیں گے، وارننگ دیتا ہوں کہ جہاں قلت کی جائے گی وہاں چیزوں کو ’’فلڈ‘‘ کر دیں گے، دس سال سے ملک کی صنعتی  پیداوار نہیں بڑھی، چین سے کہا ہے کہ اکنامک ذون میں اپنی صنعتوں کو ری لوکیٹ کرئے، ایس ایم ایز کو قرضے دینے کے لئے سکیم لائے ہیں، کامیاب کسان  پروگرام بھی شروع کیا جائیگا،کامیاب جوان پروگرام کے قرضوںمیں بھی اضافہ کیا جائیگا،  ایف بی آر ہراساں کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے، بجٹ میں ایسے اقدامات کریں گے جن سے ہراسانی ختم ہو، وفاقی وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،اس موقع پر معاون خصوصی ریونیو و خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود بھی موجود تھے ،شوکت فیاض ترین نے کہا کہ ہمیں کرونا سے خطرہ ہے ورنہ معاشی بحالی کا عمل شروع ہوچکا،حکومت نے سخت شرائط کے باوجود آئی ایم ایف پروگرام کی پرعمل کیا اور ملک کو استحکام کی طرف لے کر گئے۔  انہوں نے کہا کہ 2008 میں جب میں آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا اس وقت ماحول مناسب تھا تاہم اب ماحول کچھ اور ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے ہم پر سخت شرائط لگائیں جس کی سیاسی قیمت بھی ہے۔ حکومت نے سخت شرائط پر عمل کیا اور ملک کو استحکام کی جانب لے کر گئے اور جب نمو کی جانب جانا تھا تو ملک میں کرونا آگیا۔  مارچ میں ریونیو گزشتہ سال سے 46 فیصد بڑھا اور 20 اپریل تک 92 فیصد نمو تھی تاہم اپریل کے آخر میں کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ کم ہوکر 57 فیصد پر آگیا تھا۔ ہمیں صنعتوں کو مراعات دینی ہوں گی  تاکہ عوام کے لیے روزگار پیدا ہوں۔انہوں نے کہا کہ کوشش ہے کہ کرونا کا سایہ کم ہو اور ہم ترقی کی پٹری پر واپس چڑھیں۔ بجٹ میں ایسے پروگرام لائیں گے کہ عام آدمی کو ٹیکس نیٹ میں آنے میں کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی۔  62 فیصد آبادی ہماری دیہاتوں میں رہتی ہے ، زراعت شعبے میں گزشتہ 10 سالوں میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور ہمیں اس پر پیسے خرچ کرنے پڑیں گے ۔ہماری صنعتیں معیار کے مطابق نہیں، برآمدات کی زیادہ تر صنعتیں خاندانی کاروبار ہیں جس کا دو نسلوں بعد بٹوارا ہوجاتا ہے۔ہم اس حوالے سے چین سے بات کر رہے ہیں کہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت یہاں لگائے اور یہاں سے بر آمد کرے۔ آئی ٹی سالانہ بنیاد پر 65 فیصد کے حساب سے نمو کی جانب جارہی ہے اور یہ 100 فیصد تک جاسکتی ہے اور یہ شعبہ گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ہاؤسنگ کے شعبے میں بھی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں،آگے تک جائے گی ۔ انہوں نے بتایا کہ بنکنگ سیکٹر میں 100 روپے ڈپازٹ ملتا ہے تو 48 روپے قرض لیے جاتے ہیں، یہ بہت بڑا فرق ہے۔انہوں نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کا فوٹ پرنٹ جی ڈی پی کا 33 فیصد ہے، اسی وجہ سے ہماری سیونگ کی شرح میں اضافہ نہیں ہورہا۔ گورنر سٹیٹ بینک کیساتھ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایس ایم ای) قرضے کی سکیم کا آغاز کیا ہے۔ تعجب ہے کہ اب تک پورے  سسٹم میں صرف ایک لاکھ ایس ایم ای قرضے ہیں، آئندہ سالوں میں یہ ایک لاکھ 20 سے 30 لاکھ تک پہنچے۔  50 فیصد نقصانات کو انشورنس کمپنی کے ذریعے حکومت برداشت کرے گی۔ کامیاب نوجوان پروگرام میں صرف ساڑھے 8 ہزار قرضے ہیں جو بہت کم ہیں، تبدیل کریں گے، کامیاب کسان پروگرام کا بھی آغاز کریں گے ۔حکومت کو بیس ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ملا، خلا پْر کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ جی ڈی پی گروتھ کو کم از کم 5 فیصد پر رکھنا ہوگا۔ 70 کی دہائی میں ہم معاشی منصوبہ بندی کیا کرتے تھے، اب ہم ایک مرتبہ پھر وہی منصوبہ بندی کرنے جارہے ہیں، ہماری زیادہ توجہ قیمتوں میں استحکام ہے۔ لوگ مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں۔کنٹرول کرنے کیلئے ہر حد تک جائیں گے۔زراعت کی بہتری کے لئے مالیاتی پیکج کی ضرورت ہے۔ ہم ٹیکس کا نیٹ ورک بڑھائیں گے لیکن یہ نہیں ہوگا کہ جیسے ہم سے کہا گیا کہ 3 ہزار سے ٹارگٹ 55 سو تک لے جائیں،ہماری صنعت مقابلے کے قابل نہیں ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جاسکتی ہے، کرونا اور لاک ڈاؤن کے باعث ریونیو میں دوبارہ کمی ہو رہی ہے،کرونا روک لیا گیا تو معیشت فوری طور پر بڑھ سکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن