کرونا اور ہمارے اعمال
اللہ تعالیٰ ظلم زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتا۔ دنیا میں بھی ظالموں کا بُرا انجام ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ، کرونا بھی ایک عذاب ہے۔عذاب وہ ہوتا ہے جو ساری دنیا میں آ ئے۔ جتنے بھی عذاب آئے وہ سب دنیا میں ہی آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ظلم کرنے والے کسی کے ہاتھ نہیں آتے پھر جب وہ میرے ہاتھ آتے ہیں تو پھر ان کو کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ نہ کوئی سفارش کرنے والا ان کو ملتا ہے۔ امریکہ بہادر نے اپنی طاقت سے دنیا کو تہس نہس کر دیا۔ لاکھوں انسانوں کو قتل کر دیا۔ اپنی طاقت کے نشے بھی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے میزائلوں، بموں کی برسات کر دی ، وہی آج سب سے زیادہ کرونا کے عذاب میں پھنس گیا۔ کرونا کی لہر آرہی، جا رہی ہے۔ تیزی سے جیسے نہ ختم ہونے والی سمندر کی لہریں ساغر صدیقی نے کہا تھا:؎
نہ خوف خدا ہے نہ خوف خدائی
بشر دے رہا ہے بشر کی دہائی
بھارت اپنے آپ کو بڑا ملک سمجھتا ہے۔ آج وہاں یہی حالت ہے۔ستر سالوں میں کشمیر میں اور بھارت میں اپنے ہی شہریوں پر کتنا ظلم کر رہا ہے۔ ویسے تو مسلمان مسلمان کو اپنا بھائی کہتا ہے۔ کتنے مسلمان ملک ہیں جنہوں نے کچھ کیا ہو۔ اسی ظلم کی وجہ بھارت میں کرونا بے قابو ہو گیا۔ آج انڈیا کے عوام مسلمانوں کو کہہ رہے ہیں۔ ا ہمارے لئے دعا کریں۔ ہمارے اوپرسے یہ عذاب ٹل جائے۔ ظالموں کی فطرت ہوتی ہے جب پھنستا ہے روتا ہے۔ جب راحت ملتی ہے پھر ظلم پر اتر آتا ہے۔ بڑے بڑے فرعون، قارون اپنے آپ کو خدا کہنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ ہر وہ فرعون ہے جو دوسرے پر ظلم کرتا ہے ۔ جب پھنستا ہے تو نہ دولت کام آتی ہیں نہ خزانے کام آ تے ہیں۔ پورے ہندوستان کا بادشاہ بہادر شاہ بہت بڑا شاعر بھی تھا۔ اپنے ملک سے دور رنگون کی جیل میں چل بسا۔
’’دو گز زمیں نہ ملی کوئے یار میں‘‘
اللہ نے مسلمانوں کے دل میں رحم رکھا ہوا ہے۔ وہ کسی کا دکھ برداشت نہیں کرتا۔ حکومت پاکستان نے بھارت کو مدد کی پیشکش جہاں ہر منٹ کے بعد چار پانچ انسان ہلاک ہو رہے ہیں۔مگر وہ چپ ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں آج ہمارے پرائیویٹ ہسپتال نے جس طرح بے بس انسانوں کو لوٹ رہے ہیں۔ کیا دنیا میں ایسا ہے۔ یہ اپنے آپ کو مسیحا کہنے والے ، ایک ایک مریض سے لاکھوں روپیہ لیتے ہیں۔ حکومت بھی اُن کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ کیا انہوں نے قیامت تک زندہ رہنا ہے۔ یہ تو اُن سے پوچھیں جن پر بیت رہی ہوتی ہے ، یہ زندگی موت کا سودا کرتے ۔ میرے دوست کی والدہ ہسپتال گئی لاکھوں روپے لیے گئے۔ دو دن کے بعد فوت ہو گئی دو دن کا بارہ لاکھ کا بل بنا دیا۔ دوست بتا رہا تھا ہسپتال والوں کا کتنا خرچہ آیا ہو گا۔ ایک دن کا ایک کمرہ کا کرایہ تیس ہزار بل میں ڈال دیا۔ کیا دو دنوں میں کیا میری ماں نے ہیرے جواہرات کھا لیے تھے۔
غریب کا اس دور میں برا حال ہے نہ جی سکتا ہے نہ مر سکتا ہے۔ اگر سرکاری ڈاکٹر ہسپتال میں مریض کی دیکھ بھال ہوتی تو وہاں کوئی جائے۔ پرائیویٹ ہسپتال کی بات الگ ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں سے بھی کبھی حکومت ان کے فیسوں اور بلوں کی چھان بین کرے۔ انتظامیہ ، سبزی فروشوں ، ٹماٹر آلو پیاز بیچنے والوں کو پکڑ لیتی ہے۔ ان طاقت وروں پرہاتھ نہیں ڈالتی۔
اس کرونا کے عذاب میں لوگ امیر سے امیر ، غریب سے غریب ہو رہے ہیں۔ دس پندرہ ہزار لینے والا تو زندگی کے دن جیسے تیسے کر کے گزار دے گا جو بے روزگار ہے وہ کہاں جائے۔ مہنگائی نے ہر شخص کو بے بس کر دیا ہے ۔ آمدن کم خرچے زیادہ ، ہمارے خدمت گزار ادارے پارلیمنٹ میں بیٹھے حضرات، خدمت کرنے کا وعدہ کر کے آنے والے، خوب مراعتیں لیتے ہیں۔ اربوں کھربوں پتی ، مقروض ملک کیسے قرضے اتارے گا کیسے ترقی کرے گا، جو ملک روز کا چھ ارب روپے سود دے ۔ اُس کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہم احتیاط نہیں کر رہے۔ بھارت ہم سے دور نہیں ہے چند کلومیٹر دور ہے۔ ہمیں اپنے گناہوں سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔ کشمیریوں نے انسانی جذبے کے تحت 100 آکسیجن مشینیں زندگی بچانے کے لیے سب سے زیادہ صوبہ متاثر کو دے دی۔ ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھے حضرات کروڑوں روپے خرچ کر کے پارلیمنٹ میں عوام کے ووٹوں سے بیٹھے ہیں۔ اپنے اپنے علاقے کی عوام کو کیا دے رہے ہیں۔ ہم اپنے نبی کے کیسے اُمتی ہیں ۔ مصیبت آنے پر جان بچانے والے آکسیجن سلنڈر 700 سو روپے سے 1500 فی سلنڈر کر دیا۔ قوموں پر ایسے عذاب نہیں آتے۔ کرونا ساری دنیا میں آیا ، مگر جن کو ہم غیر مسلم کہتے ہیں ،وہاں تو ہر شہری اپنے بھائیوں کے لیے دوائیاں اور ماسک لے کر سڑکوں پر کھڑے ہو گئے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں ، زلزلہ آئے ، سیلاب آئے ، کرونا آئے ، ہمارے تاجروں کی چاندی ہو جاتی ہے یا ڈاکٹروں کی۔ کہاں چلے گئے وہ مسلمان جنہوں نے پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔