• news
  • image

اپوزیشن جماعتیں تقسیم بجٹ میں حکومت کو پریشانی نہیں ہوگی

قاضی بلال 
اسلام آباد
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ کل تک ایک دوسرے کے ساتھ مرنے جینے اورہر حال میں ایک دوسر ے کاساتھ دینے اور سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے بنایا گیا پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم )ٹکڑوں میںبٹ چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس وقت حکومت کی اپوزیشن کرنے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کی اپوزیشن کر رہے ہیں۔کراچی کے حلقے این 249میں مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل کی شکست کے بعد اور پیپلز پارٹی کے امیدوارکی فتح نے ان دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کی لفظی جنگ نے پی ڈی ایم کا تو مکمل خاتمہ کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری یہاں تک کہہ دیا کہ حقیقی سلیکٹڈ تو ن لیگ ہے۔ جواب میں مریم نواز بھی خاموش نہ رہیں اور یہ تک کہہ دیا ہے کہ شیر کا شکار آسان نہیں پہلے ہرائو تو سہی۔کراچی کے اس حلقہ میں ن لیگ کی شکست نے دونوں جماعتوں کو بہت دور کردیا ہے اوربداعتمادی حد سے بڑھ چکی ہے۔ پیپلز پارٹی پر ن لیگ کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں جانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے بھی وہی الزامات لگائے کہ آیا آپ جوڈسکہ اور نوشہرہ میں جیتے ہیں تو کیا آپ نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر لی ہے۔لگتاایسا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک خاص مقام مل چکا ہے۔
اس ساری لڑائی میں حیرت اس بات کی ہے کہ فیصل وواوڈا مکمل خاموش ہیں کیا ان کی کارکردگی اتنی بری تھی کہ ان کی جماعت پانچویں نمبر پر آئی یا پھر عام انتخابات میں لوگ جتوائے گئے ہیں وغیرہ وغیرہ جیسے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ تین سے چا ر ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی شکست نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ تیزی سے اپنی مقبولیت کھوتی جا رہی ہے۔ ضمنی الیکشن میں عام تاثر یہی ہوتا ہے کہ جس کی حکومت ہوتی ہے وہی ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوتا ہے ا س بار تاریخ الٹی چل پڑی ہے۔ ناقدین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مشتری ہوشیار باش والی پالیسی اختیار کرکے اپنے حقوق کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ ڈسکہ انتخابات میں ن لیگ کی جیت اور نوشہرہ میں وزیر دفاع پرویزخٹک کے حلقہ سے پی ٹی آئی کا ہارنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ووٹ کو عزت دو کے ساتھ ساتھ  ووٹ پر پہرہ دو کی پالیسی سیاسی جماعتوں نے شروع کر دی ہے۔دوسری جانب الیکشن کمیشن شدید تنقید کے باوجود کسی کی نہیں سنی اورسخت فیصلے دے رہا ہے۔
جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمان مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری بار انہوں نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کواتحاد میں واپس آنے کی دعوت دیدی ہے مگر دونوں جماعتوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد بظاہر انہوں نے مورچے سنبھال لئے ہیں اور وہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کیلئے اپوزیشن سے مذاکرات اور اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے اگلے عام انتخابات میں استعمال کی دعوت پر شہباز شریف نے سخت بیان دیا ہے اور اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے اور کہا کہ دنیا بھر میں یہ نظام فیل ہو چکا ہے اور اپوزیشن میں ہوتے پی ٹی آئی خود ا سکی  مخالفت کر چکی ہے۔ شہیاز شریف نے تاحال سیاسی ملاقاتیں شروع نہیں کی ہیں اور نہ ہی کسی بڑی جماعت کی بڑی قیادت سے رابطہ کیا ہے البتہ میڈیا پر وہ بیانات جاری کر رہے ہیں۔ ن لیگ اور پی پی میں دوریاں اتنی زیادہ بڑھ چکی ہیں کہ اب حکومت کم از کم ان دو جماعتوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اگلے مہینے میں بجٹ اجلاس شروع ہو جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کے منقسم ہونے کی وجہ سے بظاہر حکومت کوکوئی پریشانی نہیں البتہ  جہانگیر ترین گروپ سے وزیراعظم کی ملاقات کے بعد تصویر کچھ صاف ہونا شروع ہوگئی ہے۔جہانگیر ترین کی جانب سے یہ بیان آنا کہ بجٹ میں ہمارے ایم این ایز اور ایم پیز مشکلات پیدا نہیں کریں گے اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ اب جہانگیر ترین کو جلد کلین چٹ مل  جائے گی۔ چینی بحران پیدا کرنے والے ایک بار پھر سیاست کی نظر ہو جائیں گے اور عوام پورا رمضان ان مافیاز کی وجہ سے مہنگی چینی لائنوں میں لگ کر خریدتے رہے۔ حکومت تاحال مہنگائی کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آئی ہے۔عوامی مسائل اپنی جگہ اسی طرح موجود ہیں۔ حکومت اپوزیشن اور اپنے مخالفین کو رام کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین کو قابو کرنے کے بعد بظاہر حکومت کے سامنے کوئی بڑاسیاسی چیلنج نہیں ہے۔
معاشی طور پر کمزور ملک میں نئے وزیرخزانہ شوکت ترین کی آمد اور ان کا یہ بیان کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ زیادتی کی ہے اور بجلی ٹیرف میں اضافے کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے شیخ حفیظ واقعی پاکستان کے خیر خواہ نہیں تھے بلکہ وہ ہمیشہ سے آئی ایم ایف کے خیر خواہ رہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا ذمہ دا ر بھی سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ ہی ہیں۔ پوری قوم کو پریشانی میں ڈالنے والوں کو کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا ہے اور وہ اسی طرح بریف کیس اٹھا کر واپس اپنے آقائوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح ندیم بابر مشیر پٹرولیم اربوں روپے جیب میں ڈال کر چلتے بنے ہیں۔معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کرنے والے وزیراعظم نے مزید وزراء بنا کر اپنی کابینہ کی تعداد نصف سنچری مکمل کر لی ہے۔کفایت شعاری کی باتیں کرنے والی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی جہازی سائزکابینہ پر کنٹرول کریں۔نئے مشیر خزانہ کو چاہئے کہ وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ضرور کریں مگر پاکستان کے مفادات کو پہلے ترجیح دیں۔ سب سے پہلے مشیر خزنہ کو مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات اٹھانا چاہیں ورنہ یہ مہنگائی اس حکومت کو لے ڈوبے گی۔ عوام کا اب وزیراعظم عمرن خان کے ساتھ رومانس ختم ہوتا جارہا ہے۔ عوام کو فوری ریلیف نہ ملا تو عام انتخابات میں پی ٹی آئی گمنام ہو سکتی ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

epaper

ای پیپر-دی نیشن