تونسہ شریف سے مکہ مکرمہ تک
عشق بھی کمال چیز ہے ، آپ جس کی جستجو میں لگ جائیں اور اپنی زندگی اس کے لئے وقف کر دیں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ آپ کو حاصل نہ ہو۔ عشق سچا ہو تو انسان کو ہر حال میں ملتا ہے اور پھر اس میں فاصلے یا دنیاوی مشکلات کسی طور حائل نہیں ہوتیں۔ سچی لگن اور خالص جذبوں کو کسی صورت انکار نہیں ہوتا۔ مگر یہ جذبہ، یہ لگن اور یہ محبت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب انسان کا محبوب وہ بن جائے کہ جو اس کائنات کے بنانے والے رب کا محبوب ہے ، اور وہ رب جو اپنے محبوب کو پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں مسجد الحرام سے بیت المقدس اور سات آسمانوں سے آگے اپنے پاس بلا لیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے محبوب حضرت محمدﷺ سے محبت اورآپؐ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس کے بنا ہمارا دین و ایماں سب کچھ ہی ادھورا ہے اور بیشک نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہی اس لائق ہے کہ ہم اپنی جان سے زیادہ ان سے محبت کریں۔ بلاشبہ یہ جذبات ہر خاص و عام کے دل میں ہیں مگر دنیاوی چکروں میں پھنس کر ہم سے اکثر اس بات کا اقرار تو کرتے ہیں مگر حقیقتاً اس راہ پر چل نہیں پاتے اور اپنی پوری زندگی دنیا کے کاموں کو سنوارنے اور سلجھانے میں گزار دیتے ہیں اور زندگی کا اصل مقصد بھلا دیتے ہیں۔ پر وہیں ہمیشہ کوئی نہ کوئی راہ حق پر چلنے والا مردِ آہن بھی ہوتا ہے کہ جو اپنی زندگی کو نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلانے اور ان کے اسوہ حسنہ کے عین مطابق گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ایسی ہی ایک شخصیت سردار ریاض احمد خان کی تھی ، آپ کا تعلق تونسہ شریف سے تھا ۔ پوری زندگی انسانیت کے لئے وقف کیے رکھی، پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے اور وکالت میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ متعدد بار تونسہ بار کے صدر منتخب ہوئے ، اور نہ صرف تونسہ کے لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کیا بلکہ اپنے دوست وکلاء اور نئے آنے والوں کو بھی ہمیشہ حق اور انصاف پر چلنے کی تاکید کی۔انہیں وصف کی وجہ سے علاقے کی ہر دلعزیز شخصیت رہے۔عثمان بزدار بھی آپ کے قریبی رفقاء میں سے تھے۔ نیز اپنی ساری زندگی حق اور سچ کی تلاش میں گزاری اور اللہ کے حضور ہمیشہ سر بسجود رہے۔نبی کریم سے عشق تھا اوراس عشق میں زندگی کے صبح و شام گزارے۔اپنی اولاد کو بھی ان سے محبت کا درس دیا، اور عاشقِ رسول ﷺ بنایا۔ اسی عشق میں سرشار ہو کر دو سال قبل ماہ رمضان میں دیارِ نبی میں جا پہنچے اور پھر وہیں وصال ہوا۔ دو سال گزر جانے کے بعد بھی اہل تونسہ کے دل میں ان سے محبت اور عقیدت کا جذبہ باقی ہے اور جہاں سب ان کے بچھڑ جانے پر غمزدہ ہیں وہیں سب ان کے مقدر پر بھی رشک کرتے ہیں۔
بلا شبہ ایسے لوگوں کی زندگی ہمارے لئے ایک روشن مینارہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ یا قوم صرف تب تک رہ سکتی ہے جب تک ان کے درمیان عدل و انصاف قائم ہے ۔ جیسے ہی عدل و انصاف کا ہاتھ چھوٹا تو وہ معاشرہ بے شمار برائیوں میں گِر جاتا ہے۔ اخلاقیات کا نام و نشان نہیں رہتا اور عزتیں چوراہوں میں پامال ہوتیں ہیں۔ آج جب ہمارا دیس بھی ایسے مسائل کا شکار ہوتا جا رہا ہے تو ہمیں ایسے باکردار اور فرض شناس لوگوں کی پہلے کی نسبت بہت زیادہ ضرورت ہے کہ جو ہمارے معاشرے کی نکیل کو پکڑ کر ہمیں سیدھی راہ پر لا سکیں اور ہمارے اعمال کی درستگی کرا سکیں۔ماہ صیام کی ان بابرکت ساعتوں میں ہمیں اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگنی چاہیں کہ ہم پر اپنا فضل کرے اور ہمیں سیدھی راہ پر لے آئے کیونکہ جس پستی میں ہم گھر چکے ہیں اس میں سے نکلنا مشکل لگ رہا اور اللہ سے ہی کسی معجزے کی توقع ہے۔ کہنے کو ہم سب سچے اور پکے عاشقِ رسول ﷺ ہیں مگر ہمارے اعمال اس قدر گندے ہو چکے ہیں سب اپنی نظریں بند کئے ہوئے اور اپنے ضمیر کو سُلائے ہوئے جیسے چل رہا ہے چلائی جا رہے ہیں ۔ غرباء کا مال ہتھیانا ، یتیم و مسکین سے چھت چھیننا ، عورتوں کو بازار میں سجانا ، نیز ہر برائی ہم نے اپنے اندر پال لی ہے اور اس کو چھپانے کے لئے خود سے کچھ توجیہات بھی۔ مگر ایسے کب تک چلے گا۔ ہم سب جوابدہ ہیں، اللہ کے حضور ، امیر غریب، بوڑھا جوان، مرد عورت سب کے سب کو وہاں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ رمضان کا تیسرا عشرہ ہے جس میں کہ جہنم سے آزادی کی نوید سنائی گئی ہے ۔تو ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اس عشرے کی راتوں میں عبادات کو معمول بنائیں اور جیسے کہ حکم ہے کہ آخری دس راتوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرو تو اس تلاش میں اپنے ضمیر کو زندہ کریں اور اللہ سے اپنے اعمال کو درست کرنے کی التجا کریں۔اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی اپنے گھر بلائے۔(آمین)