• news

نیب نے اعتراف کیا شہباز شریف نے کک بیکس وصول کئے نہ غیر قانونی رقم ،لاہور ہائیکورٹ

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کی ضمانت سے متعلق فل بینچ کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس عالیہ نیلم پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے 27 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، عدالتِ عالیہ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن سے اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کے مظاہرے کی توقع کی جاتی ہے، عوامی عہدے پر کرپٹ شخص آجائے تو جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد چکنا چور ہو جاتا ہے، عوامی نمائندے پر کرپشن کے الزامات سے سیاسی نقصان پہنچتا ہے جو شکست کی ایک قسم ہے، پبلک آفس ہولڈر کو سو فیصد مسٹر کلین ہونا چاہیے، فرد کی آزادی کے بنیادی اصول مدِنظر رکھنا ہماری ذمے داری ہے، آزادی کے بنیادی اصولوں کی بنا پر ضمانت منظور یا مسترد کی جاتی ہے،تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضمانت بعد از گرفتاری میں آزادی کے اصولوں پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے، شہباز شریف کیس مزید انکوائری کا متقاضی ہے، شہباز شریف نے کوئی جائیداد خریدی نہ ان کی ملکیت ہے،شہباز شریف کے اکائونٹ میں ٹی ٹیز آنے کا کوئی ثبوت نہ دیا گیا ، شہباز شریف کے فیملی ممبرز کا ان کی کفالت میں ہونے کا براہِ راست ثبوت نہیں دیا گیا،عدالتی تفصیلی فیصلے میں ضمانت منظور کرنے کیلئے 5 اہم فیصلوں پر انحصار کیا گیا ہے، پراسیکیوشن کے شہباز شریف پرمنی لانڈرنگ کے الزام کو بطور ناقابل تردید سچ نہیں مانا جاسکتا ہے،ہم صرف ضمانت کا فیصلہ دے رہے ہیں، شہباز شریف کے خلاف ثبوت ابھی آنا باقی ہیں، پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ میں 110 گواہان کی بنیاد پر ابھی شہباز شریف کے خلاف اپنا کیس قائم کرنا ہے میاں شہباز شریف کو سزا  سنائے جانے یا ان کے بری ہونے کے برابر امکانات ہیں، عدالت متفقہ طور پر سمجھتی ہے کہ سنجیدہ وجوہات کے باعث شہباز شریف شک کا فائدہ دیئے جانے کے اہل ہیں،شہباز شریف کے خلاف عدم ثبوت پر بنچ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کے ضمانت دینے کے فیصلے سے متفق ہے، شہبازشریف کو ضمانت نہ دینے والے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ذرائع آمدنی ٹیکس ریٹرنز میں ڈیکلیئر کرنے پر مظہر حسین آصف کی ضمانت منظورکی تھی،عمران خان نیازی کیس میں قرار پایا کہ مریم نوازکو والد کی زیر کفالت نہیں کہا جاسکتا،اہل خانہ  کے ساتھ رہنامریم نواز کو زیر کفالت ثابت نہیں کرتا ،اب قانون یہ ہے کہ انکم ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر شدہ ٹرانزیکشنز سچائی پر مبنی خیال کی جاتی ہیں، شہباز شریف پر269 ملین کے اثاثوں کا الزام تو لگایاگیا لیکن کوئی ثبوت نہ دیا گیا، شہباز شریف کے ذرائع آمدن ثابت کرنے کیلئے نیب نے کوئی تفتیش نہ کی ، شہباز شریف کے اکائونٹ میں براہ راست کوئی رقوم نہ منتقل ہوئیں، نیب نے اعتراف کیاکہ شہباز شریف پر کک بیکس یا ناجائز رقم وصول کرنیکا الزام نہیں ہے، بے دلی سے شہباز شریف کو مجرم ثابت کرنیکی کوشش کے باوجود نیب ثبوت دینے کی ذمہ داری سے بری نہیں ہوسکتا ،الزام کو ثابت کرنے کا سارا بوجھ ہمیشہ پراسکیوشن پر ہوتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ نیب نے ہمارے روبرو دوٹوک طورپر یہ اعتراف کیا ہے کہ درخواست گزار (پٹیشنر) نے کسی قسم کے کک بیکس وصول نہیں کئے اور نہ ہی کسی فیور کے بدلے غیرقانونی رقوم حاصل کی ہے جس کے ذریعے اس نے اپنے اہل خانہ کے نام پر یہ اثاثہ جات بنائے ہیں۔نیب نے الزام لگایا کہ پارٹی کے حامیوں نے پارٹی فنڈز کے نام پر کچھ رقوم دی ہیں جسے پٹیشنر نے اپنے ذاتی فائدے میں استعمال کیا۔ اگر معاملہ ایسا بھی سمجھ لیاجائے تو یہ دو افراد کے درمیان تنازعہ ہوسکتا تھا یا الیکشن کمشن کے زیرغور لائے جانے کا معاملہ ہوسکتا تھا کہ کسی ناپسندیدہ شخص سے پارٹی فنڈز وصول کرلئے گئے اور ان کی منی ٹریل فراہم ہوتی۔  پٹیشنر (شہبازشریف) کے ذرائع آمدن معلوم کرنے کے لئے کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ ہمیں یہ کہنے میں ہرگزتامل نہیں کہ اپنی نیم دلانہ کوشش سے نیب پٹیشنر کے خلاف اپنا مقدمہ ثابت کرنے کی ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا سکتا کیونکہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو جاتا ہے اور الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری اس وقت ہی تبدیل ہوتی ہے جب استغاثہ اپنی (الزامات ثابت کرنے سے متعلق) ابتدائی ذمہ داری پہلے پوری کرے۔ بریگیڈئیر (ر) امتیاز احمد کے مقدمے میں استغاثہ نے ملزم کے انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کے دستاویزات پیش کئے تھے لیکن ان کے دیگر ذرائع آمدن اور ان کی اہلیہ کی بے نامی ٹرانزیکشنز (رقوم بھجوانے) کے اجزا تلاش کرنے اورانہیں ثابت کرنے میں میں ناکام رہا تھا۔ لہذا اب یہ قانون ہے کہ انکم ٹیکس ریٹرن میں ٹرانزیکشن کو سچ مانا جاتا ہے۔ عبدالعلیم خان بنام ریاست وغیرہ (رٹ پٹیشن نمبر16630 آف 2019) میں مورخہ 15 مئی 2019 کو فیصلہ ہوا جس میں اس عدالت نے ان وجوہات پر ضمانت منظور کی کہ انکم ٹیکس ریٹرنز میں جائیدادیں ظاہر کی گئی تھیں۔ یہاں تک کہ جسٹس (اسد جاوید گھرال) اس مقدمہ میں اختلافی نکتہ نظرکا اظہار کرنے سے قبل رٹ پٹیشن نمبر 3623 آف 2021 (مظہر حسین عارف بنام قومی احتساب بیورو وغیر) میں ٹیکس ریٹرنز میں رقم کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ضمانت دے چکے ہیں لہذا اکٹھے (ایک جگہ ) رہنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ کوئی گزربسر کے لئے کسی دوسرے پر انحصار کرتا (ڈی پنڈنٹ) ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن