مجید نظامی ‘بے باک شخصیت
پاکستان کی تاریخ میں شعبہء صحافت میں ایسا دور بھی آیا جس میں جمود و انحاط کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔ معاشرتی مصلحین نے اربابِ اختیار کے زیرِ اثر چپ سادھ لی تھی۔ ادب کے وارثوں نے عیش و عشرت کی راہوں کو ہموار کر لیا تھا۔ اس گھٹن زدہ ماحول کی چیرہ دستیوں میں جو شخصیت امید کی کرن بنی وہ شخصیت مجید نظامی صاحب کی تھی۔وہ ایک چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ ساری زندگی آپ کا طرئہ امتیاز رہا کہ کسی بھی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ قومی مفادات کی پاسداری آپ کا مشن تھا۔مجید نظامی نے ہمیشہ بذریعہ قلم پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا کام کیا۔ اسلامی نظریاتی تشخص کے مخالفین کا سخت محاسبہ کیا۔ بے گناہ کشمیریوں کی حالتِ زار کو اجاگر کرنے کیلئے ایک مستقل فیچر کا آغاز کیا اور ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھایا۔یومِ تکبیر کے سلسلے میں مجید نظامی صاحب کا بڑا جاندار رول رہا۔ روایتی حریف بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب کیلئے 1998 کے دور کے وزیر اعظم نوازشریف نے مختلف طبقہ فکر کے معززین، سیاسی، سماجی، مذہبی و قبائلی رہنماؤں کے ساتھ میٹنگز کیں۔ ان میں ایک میٹنگ ایڈیٹرز کے ساتھ بھی انجام پائی۔ بہت سارے ایڈیٹرز ایٹمی دھماکہ کے خلاف تھے ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسا کرنے سے مشکل میں مبتلا ہو جائینگے۔ جب امریکہ حاکمِ وقت کو دھماکہ نہ کرنے پر اتنے ملین ڈالرز کی آفر کر رہا ہے تو قبول کیجئے۔ بالآخر مجید نظامی صاحب نے کہا ’’وزیراعظم صاحب آپ کو ایٹمی دھماکہ کرنا پڑیگا۔ دھماکہ جس کے جواب میں کرنا ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ اگر دھماکہ نہ کیا تو بھارت کی ہم پر بالادستی قائم ہو جائیگی، ہم نہتے ہو جائینگے۔ اگر دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کردیگی۔ بالآخر 28 مئی کو چاغی کے پہاڑوں میں دھماکہ ہوا۔ دنیا انگشت بہ دندان رہ گئی۔ نوازشریف نے مجید نظامی صاحب کو چاغی کے مقام سے فون کیا کہ مبارک ہو! میں نے ایٹمی دھماکہ کر دیا ہے۔ اسکے بعد جناب نوازشریف نے ایک تقریب منعقد کی۔ پریذیڈنٹ ہاؤس میں انہوں نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جو ایوارڈ دیا وہی ایوارڈ (نشانِ پاکستان) انہوں نے مجید نظامی صاحب کو بھی دیا۔ جناب مجید نظامی نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ وزیراعظم صاحب آپ نے یہ ایوارڈ مجھے کس خوشی میں دیا ہے جو محسنِ پاکستان کو دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایٹم بم بنایا، میں نے دھماکہ کیا لیکن 100 فیصد حقیقت ہے دھماکہ کروانے والے آپ ہیں۔ نوازشریف نے مزید کہا کہ آپ نے جس دلیر لہجے میں مجھے جھنجھوڑا اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید میں دھماکہ ہی نہ کرتا۔ اس وقت کے وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ مجید نظامی کی بدولت ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہو گیا ہے۔مجید نظامی صاحب ایسے دبنگ ایڈیٹر تھے کہ کوئی بھی ڈکٹیٹر یا ظالم و جابر حاکم بھی انکے پایہ استقامت میں لغزش نہ لا سکا۔ انہیں انکی قابلیت کے اعتبار سے کئی حکومتوں کے حاکموں نے عہدوں اور صدارت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے احسن طریقے سے منع کر دیا اور ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ ’’میرا کام اخبار چلانا ہے۔ میرے نزدیک میں اخبار کے ذریعے ملک کی خدمت کر سکتا ہوں 1985‘‘۔ میں وزیراعظم جونیجو نے نورانی صاحب سے درخواست کی کہ وہ مجید نظامی صاحب کو یہ آفر کریں کہ ہم انہیں پنجاب کے گورنر کی کرسی فراہم کر دیں؟ اس پر مجید نظامی صاحب نے بیباک انداز میں جواب دیا ’’ان سے کہیے کہ یہ مہربانی نہ کیجئے، میں جو کام کر رہا ہوں… کرنے دیجئے۔‘‘ بلاشبہ مجید نظامی صاحب صحافت کو بطور کاروبار نہ بنانے والی قابلِ تقلید شخصیت تھے۔ نظریہ پاکستان کی ترویج کیلئے ہمہ تن مصروف رہے۔ بھارت کے ناپاک عزائم کو عالمی سطح پر اس انداز سے پیش کیا کہ ’’بھارت ایسا پڑوسی ملک ہے جو روز اول سے قیامِ پاکستان کے خلاف ہے، بقول قائدِ اعظم انہوں نے ہماری شہ رگ پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔شہ رگ سے مراد مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ ہمارے دریاؤں کا پانی بھی ہے۔ غور کیجئے اگر اسلام آباد سے لاہور آئیں جہاں تک جہلم و چناب کا پانی ہے اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ بھارت چھوڑنا چاہے۔ راوی کو دیکھیں تو وہ دریا کی بجائے نالہ بن چکا ہے۔ یہ ہماری زراعت کیلئے اچھا شگون نہیں ہے‘‘۔مجید نظامی نے صحافت، اصول پرستی، کشمیر کے الحاق پاکستان، نبی آخرالزمانؐ کے ساتھ محبت و عقیدت،عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلے میں ایسا معیار قائم کیا جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف کے ساتھ محفوظ ہے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم،
اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
٭…٭…٭