• news
  • image

صحافت کا ایک اُجلا نشاں 

آج پرانی ڈائری کے اوراق پلٹے تو سامنے وہ نظم تھی جو میں نے 2017 میں مجیدنظامی صاحب پر لکھی تھی۔ 
 خوش قسمتی سے یہ نظم میری قلمی بیاض میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی۔ایک بار مشہور کشمیری لیڈر یٰسین ملک صاحب کشمیر سے آئے ہوئے تھے میرے آنے پر بہت خوش ہوئے اور بولے یٰسین ملک چلو آج کشمیریوں کا سیشن مکمل ہوگیا ہے یہ بھی کشمیری فیملی سے ہیں بہت خوشی سے میرا تعارف یٰسین ملک صاحب سے کروایا مجھے بھی یٰسین ملک صاحب سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ 1997 میں ٹوٹ بٹوٹ فیسٹیول کا انعقاد الحمرا میں کیا گیا تو میں اپنے پروگرام کے کارڈ اور CD لے کر اُن کے پاس گئی اور اُنہیں پروگرام میں آنے کی دعوت دی اُنہوں نے کارڈ دیکھتے ہی بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا یہ کارڈ اس طرح 7دن روزانہ نوائے وقت میں شائع ہوگا تاکہ بچوں کو اور اُنکے والدین کو پتا چلے اور وہ اس پروگرام میں شرکت کریں۔ میری دونوں بیٹیاں (اُس وقت سکول میں تھیں) میرے ساتھ تھیں اُن سے بے حد شفقت سے پیش آئے اور اپنی جیب سے نئے نئے پانچ سو کے دو نوٹ نکالے اور دونوں کو ایک ایک پکڑا دیا۔ دونوں بیٹیاں مجھے اشارے کرنے لگیں کہ یہ ہمیں پیسے کیوں دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے اُن کا اشارہ سمجھتے ہوئے دونوں کو پیار کیا اور کہا کہ یہ میں تم دونوں کو ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں گانے پر دے رہا ہوں جو اب میں بھی سنوں گا۔ بچے اُن کے دفتر سے باہر نکلتے ہی کہنے لگے ماما انکل کتنے اچھے ہیں۔ میں ہر سال ٹوٹ بٹوٹ فیسٹیول کا انعقاد کرتی اور ہر سال وہ ہر حوالے سے میرے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ پھر جب ’’وقت‘‘ TVچینل کو شروع کرنے لگے تو مجھے رمیزہ نظامی صاحبہ سے ملنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ آپ بچوں کے لیے لکھتی ہیں اور بہت عرصہ سے کام بھی کررہی ہیں۔ بچوں کے پروگرامز کے لیے کچھ سوچیں اور خلاصہ وغیرہ بنا کر دیں۔ یہ اُن کی محبت تھی جو وہ صوفی تبسم کے حوالے سے مجھ سے کرتے اور مختلف Ideas بچوں کے حوالے سے شیئر کرتے رہے۔ انہی دنوں پنجاب یونیورسٹی نے اُن کی صحافت میں خدمات کے حوالے سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی اُنہیں نوازا۔میں اُس پروگرام میں موجود تھی اُس تقریب میں بھی اُنہوں نے اپنے نظریات کا تذکرہ ببانگ دُھل کیا تھا وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کشمیریوں کی آواز بنے اور اُن کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے کیونکہ کشمیر صرف اور صرف کشمیریوں کا ہے اور اُن کی آزادی اور خودمختاری اُن کا حق ہے۔ وہ اخلاق اور کردار کے حوالے سے عمل پیہم کی زندہ تصویر تھے وہ جانتے تھے کہ کسی منزل تک پہنچنے کے لیے جہدمسلسل وہی کرتا ہے جو اخلاقی اقدار کا حامل ہو بے شک وہ عمل پیہم کو ہی عروج و ترقی کی نشانی سمجھتے تھے۔ اُن کا بڑا کارنامہ نظریۂ پاکستان کو فروغ دینا اور اُس کے لیے اُنہوں نے جو ادارہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ بنایا اُس ادارے کے لیے وہ باقاعدہ وقت نکالتے اور ہر پروگرام میں پاکستان کی آزادی خودمختاری اور آزادی حاصل کرنے کے لیے پاکستانیوں کی قربانیوں کا ذکر ضرور کرتے تاکہ ہماری نئی نسلوں کو یہ باور کروایا جائے کہ آزادی کے لیے ہمارے بڑوں نے کتنی قربانیاں دیں اور پھر ہمیں یہ ملک خداداد پاکستان نصیب ہوا۔ مجیدنظامی 3اپریل 1928 میں پیدا ہوئے۔اُنہوں نے ز مانہ طالب علمی میں پاکستان موومنٹ میں بھرپور حصہ لیا تھا 1962 میں نوائے وقت کے بانی اور اپنے بڑے بھائی محترم حمیدنظامی صاحب کے انتقال کے بعد اُنہوں نے گروپ ایڈیٹر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ مجید نظامی پاکستان کے عظیم نظریاتی شخصیت نظریۂ پاکستان کے محافظ اور آبروئے صحافت تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔ اُن کی زندگی کا مقصد حضرت قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور نظریۂ پاکستان کی نوجوانوں میں ترویج تھی۔ 27رمضان المبارک بروز جمعہ کو پاکستان آزاد ہوا اور 27رمضان المبارک بروز جمعہ 26جولائی 2014 کو ڈاکٹر مجیدنظامی اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ڈاکٹرمجیدنظامی کا عمل ایسا ہے جیسے سمندر میں پتھر پھینکا جائے تو وہ پانی کو ضرور متحرک کرتا ہے اسی طرح انسان کا عمل اپنے اثرات و نتائج ضرور چھوڑتا ہے۔ 
مجیدنظامی کے لیے ایک نظم 
صحافت کا وہ اِک اُجلا نشاں تھا
وہ ملت کے ستاروں کا جہاں تھا 
٭…٭…٭
زمانے بھر کا محرم راز تھا وہ 
ہماری زندگی کا ترجماں تھا
٭…٭…٭
اُسی کے دم سے رونق تھی یہ سچ ہے 
وہ تنہا ہو کے بھی تنہا کہاں تھا
ہمیشہ ہی رہیں گے اُس کے چرچے
وہ سارے شہر کا اِک ہم زباں تھا
٭…٭…٭
اُسی کی فکر سے یہ روشنی ہے 
نوائے وقت تھا اور مہرباں تھا
٭…٭…٭
بہت ٹھنڈے ہیں جن پیڑوں کے سائے
اُنہیں پیڑوں میں اُس کا آشیاں تھا
٭…٭…٭
اُسی کے دل کی گہرائی سے نکلی
وہ جس تحریر میں شعلہ رواں تھا 
٭…٭…٭
خیالوں میں بلندی اس قدر تھی
زمیں پر تھا مگر جنت مکاں تھا 

epaper

ای پیپر-دی نیشن